سوال:
مفتی صاحب! میری بیوی نے مجھ سے کسی بات پہ لڑائی کی اور میں نے غصے میں اسے ڈرانے کے لیے یہ کہا کہ "اگر تمہیں مجھ سے کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھ سے تین طلاق لو اور گھر جاؤ" لیکن کچھ دیر بعد جب غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو اہلیہ نے مجھ سے کہا کہ آپ نے کہا کہ تین طلاق دیتا ہوں اور گھر جاؤ، اب بات یاد نہیں آرہی کہ کیا الفاظ استعمال کیے تھے لیکن طلاق دینے کی نیت سے نہیں بولا تھا بلکہ ڈرانے کی نیت سے بولا تھا، اب مجھے بتائیں کہ اس بات پر طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں جبکہ کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے ؟
تنقیح اول: کیا شوہر قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے سوالیہ انداز میں کہا تھا طلاق دینا مقصود نہیں تھا؟
جواب تنقیح :طلاق دینا مقصود نہیں تھا اور نہ دماغ میں ایسی کوئی بات تھی، جی سوالیہ انداز میں کہا اور ڈرانے کے اعتبار سے کہا۔
تنقیح ثانی: جب شوہر نے بیوی سے کہا کہ اگر تمہیں مجھ سے کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھ سے طلاق لو اور گھر جاؤ تو بیوی نے کیا جواب دیا ؟
جواب تنقیح : بیوی خاموش ہو گئی تھی اور کچھ بھی نہیں کہا۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں شوہر نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دوران جو جملہ استعمال کیا ہے کہ "اگر تمھیں مجھ سے کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے تین طلاق لے لو اور گھر جاؤ "اگر اس جملے سے شوہر کا مقصود طلاق دینا نہیں تھا بلکہ ڈرانا مقصود تھا اور یہ جملہ بھی سوالیہ انداز میں کہا تھا اور شوہر اس پر حلف بھی اٹھاتا ہے تو اس جملے سے قضاءً کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، البتہ اگر بیوی کو اس بات کا یقین ہو کہ شوہر نے "تین طلاق دیتا ہوں" کہا ہے اور اس کو سننے میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے تو بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور اس پر شرعاً لازم ہے کہ کسی بھی طریقے سے اپنی جان چھڑائے، خواہ اس سے طلاق لے لے یا مہر کے عوض خلع لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیة:(کتاب الطلاق ،264/2،ط: رشیدیة)
ﺳﻪ ﻃﻼﻕ ﺑﺮ ﺩاﺭﻭ ﺭﻓﺘﻲ ﻻ ﻳﻘﻊ ﻭﻳﻜﻮﻥ ﻫﺬا ﺗﻔﻮﻳﺾ اﻟﻄﻼﻕ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﻭﺇﻥ ﻧﻮﻯ ﻳﻘﻊ ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ ﺳﻪ ﻃﻼﻕ ﺧﻮﺩ ﺑﺮ ﺩاﺭﻭ ﺭﻗﺘﻲ ﻳﻘﻊ ﺑﺪﻭﻥ اﻟﻨﻴﺔ ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻟﺖ ﻃﻠﻘﻨﻲ ﻓﻀﺮﺑﻬﺎ.
وفیه أيضاً:(فصل في المشيئة،290/2،ط: رشیدیة)
ﺇﺫا ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ: ﻃﻠﻘﻲ ﻧﻔﺴﻚ ﺳﻮاء ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ: ﺇﻥ ﺷﺌﺖ ﺃﻭ ﻻ ﻓﻠﻬﺎ ﺃﻥ ﺗﻄﻠﻖ ﻧﻔﺴﻬﺎ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻟﻤﺠﻠﺲ ﺧﺎﺻﺔ ﻭﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻌﺰﻟﻬﺎ.
وفيه أيضاً:(فصل في الأمر باليد ،276/2،ط: رشیدیة)
ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻏﻀﺐ ﺃﻭ ﻣﺬاﻛﺮﺓ اﻟﻄﻼﻕ ﻓﺎﻟﻘﻮﻝ ﻗﻮﻟﻪ ﻣﻊ اﻟﻴﻤﻴﻦ ﻭﺗﻘﺒﻞ ﺑﻴﻨﺔ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻓﻲ ﺇﺛﺒﺎﺕ ﺣﺎﻟﺔ اﻟﻐﻀﺐ ﻭﻣﺬاﻛﺮﺓ اﻟﻄﻼﻕ ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻞ ﺑﻴﻨﺘﻬﺎ ﻓﻲ ﻧﻴﺔ اﻟﻄﻼﻕ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺗﻘﻴﻢ اﻟﺒﻴﻨﺔ ﻋﻠﻰ ﺇﻗﺮاﺭ اﻟﺰﻭﺝ ﺑﺬﻟﻚ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻈﻬﻴﺮﻳﺔ.
فتح القدير:(كتاب الطلاق،71/4،ط: رشیدیة)
(ﻗﻮﻟﻪ: ﺛﻢ ﻻ ﺑﺪ ﻣﻦ اﻟﻨﻴﺔ) ﺃﻱ ﻧﻴﺔ اﻟﻄﻼﻕ ﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ (اﺧﺘﺎﺭﻱ ﻷﻧﻪ ﻳﺤﺘﻤﻞ ﺗﺨﻴﻴﺮﻫﺎ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻬﺎ) ﺑﺎﻹﻗﺎﻣﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﻜﺎﺡ ﻭﻋﺪﻣﻪ (ﻭﻳﺤﺘﻤﻞ ﺗﺨﻴﻴﺮﻫﺎ ﻓﻲ ﻏﻴﺮﻩ) ﻣﻦ ﻧﻔﻘﺔ ﺃﻭ ﻛﺴﻮﺓ، ﻓﺈﺫا اﺧﺘﺎﺭﺕ ﻧﻔﺴﻬﺎ ﻓﺄﻧﻜﺮ ﻗﺼﺪ اﻟﻄﻼﻕ ﻓﺎﻟﻘﻮﻝ ﻟﻪ ﻣﻊ ﻳﻤﻴﻨﻪ، ﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﺧﻴﺮﻫﺎ ﺑﻌﺪ ﻣﺬاﻛﺮﺓ اﻟﻄﻼﻕ ﻓﺎﺧﺘﺎﺭﺕ ﻧﻔﺴﻬﺎ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﺃﻧﻮ اﻟﻄﻼﻕ ﻻ ﻳﺼﺪﻕ ﻓﻲ اﻟﻘﻀﺎء.
البحر الرائق:(کتاب الطلاق،439/3،ط: رشیدیة)
ﻭﻓﻲ ﻓﺘﺢ اﻟﻘﺪﻳﺮ ﻟﻮ ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ ﺧﺬﻱ ﻃﻼﻗﻚ ﻓﻘﺎﻟﺖ ﺃﺧﺬﺕ اﺧﺘﻠﻒ ﻓﻲ اﺷﺘﺮاﻁ اﻟﻨﻴﺔ ﻭﺻﺤﺢ اﻟﻮﻗﻮﻉ ﺑﻼ اﺷﺘﺮاﻃﻬﺎ اﻩ.
ﻭﻇﺎﻫﺮﻩ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﻘﻊ ﺣﺘﻰ ﺗﻘﻮﻝ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺃﺧﺬﺕ ﻭﻳﻜﻮﻥ ﺗﻔﻮﻳﻀﺎ.
رد المحتار:(إن الصريح يحتاجه في وقوعه ديانة إلى النية،251/3،ط: سعید)
فقہی مقالات:(مقالة المرأۃ کاالقاضي،296/1، دار العلوم کراچی)
کفایت المفتی:(باب تفویض الطلاق،232/8، ادارۃ الفاروق کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی