سوال:
ایک شخص موٹر سائیکل مکینک ہے، اس کے ساتھ دوسرا شخص خرید و فروخت کا معاملہ بھی کرتا ہے، بعض مرتبہ کوئی آکر کہتا ہے کہ میری گاڑی مثال کے طور پر دس ہزار کی فروخت کردو تو بیچنے والے کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ دس ہزار سے نفع کے ساتھ بیچ دے اور جھوٹ بھی نہ ہو اور بیچنے والے کے لیے نفع بھی حلال رہے؟
اسی طرح کبھی کسی کے ساتھ ڈیلنگ نہ کرسکتے ہوں تو کیا اپنے کاریگر کی طرف جھوٹی نسبت کرکے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کی گاڑی ہے اور اتنے پیسے مانگ رہا ہے، یہ جھوٹ اور دھوکہ میں تو نہیں آئے گا؟
جواب: کسی شخص کی کوئی چیز آگے بکوا کر دینا وکیل بنانے (توکیل) کا معاملہ ہے٬ اور جائز کام کرنے پر وکالت کی اجرت بھی لی جاسکتی ہے٬ لیکن وکیل بننے کی صورت میں اجرت طے کیے بغیر درمیان میں خفیہ طور پر اپنا کمیشن/ نفع رکھنا شرعا درست نہیں ہے۔
اس کے جائز متبادل کے طور پر درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے:
1- گاڑی لیتے وقت شروع میں ہی مالک کے ساتھ گاڑی بکوانے کے عوض اجرت (کمیشن) طے کرلی جائے۔
2- دوسری صورت یہ ہے کہ اس سے کمیشن ایجنٹ کا معاملہ نہ کیا جائے، بلکہ پہلے گاڑی وہ مکینک خود خرید لے، جب گاڑی کی ملکیت، قبضہ اور ضمان (Risk) اس کی طرف منتقل ہوجائے تو وہ گاڑی آگے کسی تیسرے شخص کو نئے ریٹ پر بیچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نئے گاہک سے جو اضافی قیمت طے کرکے لی جائے، وہ اس کا حلال منافع ہوگا۔
واضح رہے کہ کسی فرضی شخص (جس کا خریداری کا کوئی ارادہ نہ ہو) کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ اتنے میں مانگ رہا ہے، جھوٹ اور غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے، جوکہ جائز نہیں ہے۔ نیز اس شخص (کاریگر) کو اپنا وکیل ظاہر کرکے یہ کہنا کہ یہ بندہ گاڑی اتنے میں مانگ رہا ہے، یہ بھی بظاہر دھوکہ دہی میں آتا ہے، اس لئے اس صورت سے بھی بچنا چاہئیے۔ اس کی بجائے اوپر ذکر کردہ دو صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرلی جائے تو اس کیلئے نفع کمانا شرعا درست ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1972، ط: دار الغرب الإسلامي)
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به
مرقاة المفاتيح: (رقم الحدیث: 2783، ط: دار الفكر)
وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: «قيل: يا رسول الله: أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور» ". رواه أحمد.
(وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب) : أي أنواعه (أطيب) ؟ أي أحل وأفضل (قال: " عمل الرجل بيده) ، أي من زراعة أو تجارة أو كتابة أو صناعة (وكل بيع مبرور)..... والمراد بالمبرور أن يكون سالما من غش وخيانة
الدر المختار: (10/6، ط: دار الفکر)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة۔۔الخ
رد المحتار: (47/6، ط: دار الفکر)
قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة و يطيب الأجر المأخوذ
و اللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی