عنوان: مہینے کے درمیان ملازم کی رضا مندی کے بغیر یک طرفہ طور پر ملازمت سے برخاست کرنے کا حکم (10031-No)

سوال: میں نے ایک جگہ ملازمت اختیار کی تھی اور چھ مہینے کام کیا ہر مہینے مجھے تنخواہ ملتی رہی جب ساتواں مہینہ شروع ہوا تو 13 دن گزرنے کے بعد مجھے میرے سیٹھ صاحب نے کہا کہ پرانا آدمی واپس آگیا ہے اس لیے ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں تو میں نے پورے مہینہ کام کرنے اور ملازمت کرنے کو کہا کہ مہینہ پورا ہو جائے تو پھر چلا جاؤں گا ورنہ مجھے پورے مہینہ کی تنخواہ دی جائے، اس پر انہوں نے 13 دن کی تنخواہ دینے کی حامی بھری میں نے انکار کر دیا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا سیٹھ صاحب پر پورے مہینے کی تنخواہ لازم ہے یا نہیں؟ جبکہ مہینہ کے درمیان میں ملازمت ان کی وجہ سے چھوڑنی پڑی ہے میری طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔

جواب: ملازمت کا معاملہ عقد اجارہ ہوتا ہے، اور اجارہ کا اصول ہے کہ مدت ختم ہونے سے پہلے بغیر کسی معقول عذر کے یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا، ہمارے عرف میں ملازمت کا عقد عام طور پر ماہانہ بنیاد پر ہوتا ہے، (البتہ اگر کسی جگہ مہینہ سے کم مدت ملازمت کی صراحت یا عرف ہو تو پھر اسی مدت کا اعتبار ہوگا) لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں مہینہ پورا ہونے سے پہلے بغیر عذر کے یک طرفہ طور پر ملازم کی رضامندی کے بغیر اجارہ کا معاملہ ختم نہیں کیا جاسکتا، نیز پرانے ملازم کا واپس آنا شرعا کوئی ایسا عذر نہیں ہے، جس کی بنا پر یک طرفہ طور پر اجارہ کا معاہدہ ختم کیا جاسکے۔
لہذا اس صورت میں ملازم کی طرف سے مہینہ پورا کرنے کا مطالبہ درست ہے، اور مہینہ پورا ہونے سے پہلے فارغ کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے شرعا درست نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود اگر مہینہ کے دوران ملازم کو فارغ کردیا تو جتنے دن ملازم نے کام کیا ہے، ان دنوں کی تنخواہ دینا شرعا لازم اور ضروری ہے، ان دنوں کی تنخواہ ضبط کرنا جائز نہیں ہے، نیز مہینہ کے دوران ملازم کو نکالنے کی صورت میں بقیہ دنوں کی تنخواہ دینا اگر معاہدہ میں طے کیا گیا ہو یا حکومتی قانون کی وجہ سے لازم ہو، تو چونکہ ایسے جائز ملکی قوانین کی پاسداری شرعا بھی ضروری ہوتی ہے، اس لئے اس صورت میں ان بقیہ دنوں کی تنخواہ دینا بھی ضروری ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشکاۃ المصابیح: (889/2، ط: المکتب الاسلامي، بیروت)
قال رسول اللہ صلي اللہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه

بدائع الصنائع: (انواع شرائط ركن الاجارة، 182/4، ط: دار الكتب العلمية)
ولو قال: أجرتك هذه الدار سنة كل شهر بدرهم جاز بالإجماع؛ لأن المدة معلومة والأجرة معلومة فلا يجوز - ولا يملك أحدهما - الفسخ قبل تمام السنة من غير عذر

بدائع الصنائع: (100/7، ط: دار الکتب العلمیة)
ولو أمرهم بشيء لا يدرون أينتفعون به أم لا، فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية؛ لأن اتباع الإمام في محل الاجتهاد واجب، كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 597 Dec 12, 2022
mahinay / mahiney k darmian / darmiyan mulazim ki raza mandi k baghair yak tarfa toor per mulazmat / nokri se /say barkhast karne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.