resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حجام کی کمائی کا حکم (25964-No)

سوال: میرے ایک دوست کی حجام کی دکان ہے، اس کے گھر کسی نے آکر کہا کہ حجام تمہارا پیشہ حرام ہے، اپنی نوکری چھوڑ کر دوسرا پیشہ شروع کرو، وہ پچھلے 28 سال سے یہ پیشہ کر رہا ہے، ہمیں اس پر مناسب فتویٰ چاہیے کیونکہ دوست آکر باتیں سنا رہے ہیں کہ ہم نے تمہارے ساتھ کھانا کھایا اور یہ حرام ہو گیا اب ہمیں صدقہ نکالنا ہوگا۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ

جواب: واضح رہے کہ حجام کی کمائی مکمل طور پر حرام نہیں ہے، بلکہ اس میں تفصیل ہے کہ اگرحجام/نائی کو آمدنی ممنوع کام مثلاً شیو (Shave) بنانے یا داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنے سے حاصل ہوتی ہو تو وہ آمدنی اس کے لیے حلال نہیں ہے، لیکن اگر ان ممنوع کاموں کے علاوہ دیگر جائز کاموں سے جیسے سر مونڈنے، بال کاٹنے یا خط بنانے سے حاصل ہوتی ہو تو یہ آمدنی حلال ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق مذکورہ شخص کے لیے شیو بنانے یا داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال نہیں اور ایسی آمدنی سے کسی کی دعوت کرنا بھی جائز نہیں، البتہ اس کے علاوہ دیگر جائز کاموں سے مثلاً بال کاٹنے، سر مونڈنے اور خط وغیرہ بنانے سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے لیے حلال ہے اور دیگر لوگوں کے لیے بھی ایسی آمدنی سے کی گئی دعوت کو قبول کرنا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل

المبسوط للسرخسي (16/ 38، ط: مطبعة السعادة)
ولا تجوز الإجارة على شيء ‌من ‌الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو؛ لأنه معصية والاستئجار على المعاصي باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا.

کذا في فتوي دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: (50/1796)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment