سوال:
مفتی صاحب! اجرت پر امامت اور اذان دینے کا شرعی کیا حکم ہے؟ اور کیا اجرت لینے کی وجہ سے اخروی اجر و ثواب ضائع ہو جائے گا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ متاخرین علماء نے ضرورت کی وجہ سے امامت اور اذان پر اجرت لینے کو جائز کہا ہے اور ضرورت یہ ہے کہ اجرت نہ دینے کی صورت میں دینی شعائر ختم ہو جانے کا خطرہ ہے، لہذا اسی بنا پر امامت، اذان وغیرہ پر اجرت لینا درست ہے، نیز وہ اپنے وقت کی اجرت لیتے ہوئے اگر اپنی نیت خاص اخروی اجر و ثواب کے لیے رکھتے ہیں تو اجرت لینے کی وجہ سے ان کا اجر و ثواب ضائع نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد االمحتار: (55/6، 56، ط: سعيد)
(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح (و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه) ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.
(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوی۔۔۔وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ۔۔۔۔۔فهذا دليل قاطع وبرهان ساطع على أن المفتى به ليس هو جواز الاستئجار على كل طاعة بل على ما ذكروه فقط۔
البحر الرائق: (34/8، ط: رشیدیة)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی