سوال:
۱) موبائل میں جو ایڈوانس بیلنس ملتا ہے اس کی مد میں واپسی پر زائد پیسے کٹتے ہیں تو کیا ایڈوانس بیلنس لینا جائز ہے؟
۲) بیلنس شیئر کرنے میں منٹس کی صورت میں بونس ملتا ہے اور کبھی موبائل میں بیلنس ڈلوانے پر بھی بونس ملتا ہے، کیا اس بونس کا استعمال کرنا صحیح ہے؟
جواب: 1. صارف کا کمپنی سے ایڈوانس بیلنس لينے كا معاملہ درحقیقت قرض کا قرض کے ساتھ تبادلہ نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ صارف کمپنی سے نیٹ ورک استعمال کرنے کا ایک نقد "حق" حاصل كرکے اس کی قیمت ادھار کے طور پر ادا کرتا ہے اور چونکہ نقد اور ادھار قیمتوں میں عام طور پر فرق کیا جاتا ہے جو کہ شرعا جائز ہے، اس وجہ سے کمپنی اس ایڈوانس بیلنس پر صارف سے بوقتِ ادائیگی اضافی پیسے لے لیتی ہے، جسے وہ "سروس چارجز" کا نام دیتی ہے، لہٰذا موبائل کمپنیوں سے بوقتِ ضرورت ایڈوانس بیلنس لینا اور کمپنی کا اس پر اضافی پیسے کاٹنا جائز ہے۔
2. بیلنس شیئر کرنے پر کمپنی کی طرف سے جو غیر مشروط بیلنس یا فری منٹس وغیرہ ملتے ہیں وہ کمپنی کی طرف سے اس کی سروس استعمال کرنے پر صارف کو ہبہ( گفٹ) اور تبرع ہوتے ہیں، اس لئے ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (156/5، ط: دار الفکر)
وفي البزازية باعه على أن يهبه من الثمن كذا لا يصح ولو على أن يحط من ثمنه كذا جاز.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (65/10، ط: دار السلاسل)
التبرع لغة : مأخوذ من برع الرجل وبرع بالضم أيضا براعة ، أي : فاق أصحابه في العلم وغيره فهو بارع ، وفعلت كذا متبرعا أي : متطوعا ، وتبرع بالأمر : فعله غير طالب عوضا .
وأما في الاصطلاح ، فلم يضع الفقهاء تعريفا للتبرع ، وإنما عرفوا أنواعه كالوصية والوقف والهبة وغيرها ، وكل تعريف لنوع من هذه الأنواع يحدد ماهيته فقط ، ومع هذا فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع ، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا .
کذا في تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 11/2253
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی