سوال:
دنیا میں ہماری جو رشتہ داریاں ہیں، کیا وہ جنت میں بھی برقرار رہیں گی یا وہ جنت میں ایک دوسرے کو نہیں پہچانیں گے؟ جنت میں دنیاوی رشتہ داروں کی حیثیت کو تفصیل سے بیان فرمادیں۔
جواب: مختلف نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں مختلف رشتے دار ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہیں گے اور ان میں سے بعض کو ایک ساتھ بھی رکھا جائے گا، اس سلسلے میں چند آیات و احادیث ذیل میں ملاحظہ ہوں:
ترجمہ: "(جن سے کہا جائے گا کہ) اے میرے بندو! آج تم پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے۔ اے میرے وہ بندو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور فرمانبردار رہے تھے۔ تم بھی اور تمہاری بیویاں بھی، خوشی سے چمکتے چہروں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ ان کے آگے سونے کے پیالے اور گلاس گردش میں لائے جائیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی دلوں کو خواہش ہوگی اور جس سے آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) اس جنت میں تم ہمیشہ رہو گے"۔(سورة الزخرف، آیت نمبر: 68- 71)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنتی میاں بیوی ایک ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں ایک ساتھ رکھے جائیں گے اور اس جنت میں انہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے۔
"اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے تو ان کی اولاد کو ہم انہی کے ساتھ شامل کردیں گے، اور ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے۔ ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے"۔ (سورة الطور ، آیت نمبر21 )
اس آیت مبارکہ کی تشریح ایک حدیث شریف مں ہے جو مسندِ بزار میں حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعا مروی ہے اور شرح مشکل الآثار میں موقوفا مروی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ مومن کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس کی اولاد کو ان کے اصل مقام سے بلند کرکے اس کے پاس اس کے درجے میں پہنچادیں گے، اگرچہ یہ اولاد اپنے اعمال کے اعتبار سے اس درجے تک نہ پہنچتی ہو، پھر حضور نبی کریمﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:" اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے۔۔۔ الخ"۔ (شرح مشكل الآثار، حديث نمبر: 1075) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت کی اولاد کو ان کی خواہش کے مطابق ان کے ساتھ ہی رکھا جائے گا۔
مسند بزار کی ایک اورحدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو ان میں سے کسی کو اپنے بھائیوں اور اعزہ سے ملنے کی خواہش ہوگی تو اس کا بستر وہاں سے اٹھ کر ان کے بستروں کے برابر پہنچ جائے گا اور پھر دونوں تکیہ لگا کر دنیا میں بیتے ہوئے دنوں کے بارے میں باتیں کرنے لگیں گے۔ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد ہے کہ اللہ نے فلاں دن اور فلاں فلاں جگہ پر ہماری مغفرت فرمائی تھی اس طرح کہ ہم نے اللہ سے دعا کی تھی اور اللہ نے ہمیں مغفرت کا پروانہ عطا فرمادیا تھا"۔ (مسند البزار، حدیث نمبر: 6668)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (العبس، الآية: 33، 37)
فَإِذَا جَآءَتِ ٱلصَّآخَّةُ o يَوۡمَ يَفِرُّ ٱلۡمَرۡءُ مِنۡ أَخِيهِ o وَأُمِّهِۦ وَأَبِيهِ o وَصَٰحِبَتِهِۦ وَبَنِيهِ o لِكُلِّ ٱمۡرِيٕٖ مِّنۡهُمۡ يَوۡمَئِذٖ شَأۡنٞ يُغۡنِيهِ o
و قوله تعالی: (الطور، الآية: 21)
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱتَّبَعَتۡهُمۡ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلۡحَقۡنَا بِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَمَآ أَلَتۡنَٰهُم مِّنۡ عَمَلِهِم مِّن شَيۡءٖۚ كُلُّ ٱمۡرِيِٕۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٞ o
و قوله تعالی: (الزخرف، الآية: 68، 71)
يَٰعِبَادِ لا خَوۡفٌ عَلَيۡكُمُ ٱلۡيَوۡمَ وَلَآ أَنتُمۡ تَحۡزَنُونَ o ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بَِٔايَٰتِنَا وَكَانُواْ مُسۡلِمِينَ o ٱدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ أَنتُمۡ وَأَزۡوَٰجُكُمۡ تُحۡبَرُونَ o يُطَافُ عَلَيۡهِم بِصِحَافٖ مِّن ذَهَبٖ وَأَكۡوَابٖۖ وَفِيهَا مَا تَشۡتَهِيهِ ٱلۡأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلۡأَعۡيُنُۖ وَأَنتُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ o
و قوله تعالی: (حم السجدة، الآية:31، 32)
نَحۡنُ أَوۡلِيَآؤُكُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِۖ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ o نُزُلٗا مِّنۡ غَفُورٖ رَّحِيمٖ o
شرح مشكل الآثار: (رقم الحديث: 1075، ط: مؤسسة الرسالة العالمية)
عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن الله عز وجل ليرفع ذرية المؤمن معه في درجته وإن كان لم يبلغها في العمل ليقر بهم عينه"، ثم قرأ: {والذين آمنوا وأتبعناهم ذرياتهم}، وكما حدثنا عبد الله بن محمد بن سعيد بن أبي مريم قال: حدثنا الفريابي قال: حدثنا سفيان قال: حدثني سماعة قال: حدثني عمرو بن مرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس ولم يرفعه قال: " إن الله عز وجل ليرفع ذرية المؤمن في درجاته ليقر بهم عينه وإن كانوا دونه في العمل" قال أبو جعفر: وقد روى هذا الحديث أيضا عن عمرو بن مرة قيس بن الربيع الأسدي فلم يتجاوز به ابن عباس كما حدثنا ابن أبي مريم قال: حدثنا الفريابي قال: حدثنا قيس بن الربيع عن عمرو بن مرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس، ثم ذكر مثل حديثه، عن الفريابي عن سفيان عن سماعة، وزاد: ثم قرأ: {والذين آمنوا وأتبعناهم ذرياتهم بإيمان} ، الآية قال أبو جعفر: وهذا الحديث فنحن نحيط علما لو لم نجد أحدا من رواته رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم أن ابن عباس لم يأخذه إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم إذ كان الذي فيه إخبار عن الله عز وجل بمراده في الآية المذكورة فيه، وذلك مما لا يؤخذ من غير النبي صلى الله عليه وسلم ثم تأملنا نحن ما في هذا الحديث فوجدنا فيه رفع الله عز وجل ذرية المؤمن الذين اتبعوه بإيمان بالمؤمن الذين هم ذريته ليقر بهم عينه وإلحاقه إياهم به ، ووجدنا غير النبي صلى الله عليه وسلم من المؤمنين قد دخل في ذلك فعقلنا بذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم أدخل في ذلك منهم ، وأنه في إلحاق الله عز وجل به ذريته المتبعة له بالإيمان به ليقر عينه بذلك أولى من سائر المؤمنين سواه ، وإنما كان ذلك لسائر المؤمنين سواه ليقر به أعينهم كان له في ذريته المتبعة له بالإيمان أولى ، وكانوا بذلك منه أحرى ، والله نسأله التوفيق»
مسند البزار: (رقم الحدیث: 6668)
حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا سعيد بن دينار، حدثنا الربيع بن صبيح ، عن الحسن، عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دخل أهل الجنة الجنة اشتاقوا إلى إخوان فيجيء سرير هذا حتى يحاذي سرير هذا فيتحدثان فيتكيء هذا ويتكيء هذا فيتحدثان بما كان في الدنيا فيقول أحدهما لصاحبه: يا فلان تدري أي يوم غفر الله لنا يوم كذا في موضع كذا وكذا فدعونا الله فغفر لنا. وهذا الحديث لا نعلمه يروى، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد من هذا الوجه وتفرد به أنس.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی