سوال:
میں ایک لڑکی سے پیار کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ اپنے باپ کے ڈر سے اپنے گھر پر نہیں بول پائی، سید گھر کی لڑکی ہے اور میں غیر سید ہوں، اس کو ایک لڑکے کا رشتہ آیا تو میں نے اس کو بولا منع کر دو، لیکن وہ نہیں مانی اور اس نے رشتہ کے لئے ہاں کر دی، پھر کچھ دنوں بعد وہ رشتہ آگے نہیں بڑھا، میں نے اس کو بولا کہ میں آپ کو دنیا میں بھی پانا چاہتا ہوں اور آخرت میں بھی، پھر اس لڑکی نے بولا ہم نکاح کرتے ہیں لیکن میں شادی کسی اور سے کرونگی، اس لڑکی کو اس بات کا علم بھی تھا کہ عورت ایک نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرا نکاح نہیں کر سکتی اور مجھ سے طلاق لئے بغیر جس سے بھی وہ شادی کرے گی اس کے ساتھ صرف زنا ہوگا۔
میں نے اسکو بولا ٹھیک ہے، لیکن ہم اللہ سے دعا کرتے رہینگے کہ اے اللہ ہمارے لئے راستہ نکال، ہمیں کبھی الگ نہ کرنا،
پھر ہم نے ۱۹ جنوری ۲۰۲۲ کو چھپ کر نکاح پڑھا، اس نے ویڈیو کال (video call) پر میرے ایک دوست کو اپنا وکیل بنایا اور پھر دو مسلمان مرد گواہوں کی موجودگی میں 30000 ہزار مہر کے عوض ایجاب و قبول کیا، لڑکی نے اپنا وکیل میرے دوست کو بنایا۔
ایسے نکاح کرنے سے پہلے میں نے اپنی بستی کے کچھ مفتیان کرام سے پوچھا تھا کہ کیا ایسے ویڈیو کال پہ لڑکی اپنا وکیل بنا کر نکاح کر سکتی ہے اور نکاح منعقد ہوجائے گا؟ انہوں نے کہا تھا کہ ہاں ہو جائے گا۔ لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ گھر والوں کے لئے لڑکی شادی کسی اور سے کرے گی۔
چونکہ اس شرط پر نکاح ہوا تھا کہ وہ لڑکی شادی کہیں اور کریگی تو میں نے نکاح کے کچھ دن بعد اس کو بولا کہ دیکھو تم کہہ رہی ہو شادی کہیں اور کرونگی اور نکاح میں تمہارے ساتھ رہوں گی، ایسے تو تم بھی گناہگار ہو جاؤ گی اور میں بھی، اب وہ تب سے مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے مگر میں اس کو طلاق نہیں دیتا چاہتا، میں نے اس کو بولا ہے کہ جب تمہارا کہیں اور رشتہ ہوگا، تب طلاق دوں گا، اس نے کہا ٹھیک ہے، ابھی کچھ دن پہلے اس کا ایک جگہ پہ رشتہ پکا ہوا تھا، پھر اس نے مجھ سے طلاق مانگی، میں نے اس کو بولا کہ کچھ دن بعد دونگا، لیکن انہیں دنوں میں وہ رشتہ ٹوٹ گیا۔
کیا میرے یہ کہنے سے کہ جب رشتہ ہوگا تب طلاق دونگا، طلاق واقع ہوگئی؟ اگر کل اس کا کہیں پہ رشتہ ہوگیا تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ نیز مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اور کیا وہ مجھ سے ایک طلاق لے کر عدت گزار کے کسی اور کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ سیدہ لڑکی سید لڑکے کا کفؤ نہیں ہے اور غیر کفؤ میں کیا گیا نکاح ولی کی رضامندی کے بغیر اگرچہ منعقد ہوجاتا ہے، لیکن لڑکی کے اولیاء کو بچے کی پیدائش سے قبل عدالت کے ذریعے یہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں شرعاً لڑکی کا نکاح منعقد ہوچکا ہے، لہذا جب تک اس کا شوہر اسے طلاق نہ دے دے یا اس کا ولی نکاح فسخ نہ کرادے، تب تک اس کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
نیز سوال میں ذکر کردہ الفاظ "جب رشتہ ہوگا تب طلاق دوں گا" سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، کیونکہ اس میں مستقل میں محض طلاق دینے کا ارادہ ہے، البتہ اگر آپ اسے رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دے دیں تو ایک طلاق سے ہی وہ آپ کے نکاح سے نکل جائے گی اور عدت گزارے بغیر کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (317/2، ط: دار الكتب العلمية)
وأما الثاني فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم»حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلك ألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن، ويتعيرون بدناءة نسبه، فيتضررون بذلك، فكان لهم أن يدفعوا الضرر عن أنفسهم بالاعتراض.
الدر المختار مع رد المحتار: (56/3، ط: دار الفكر)
(وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والاصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الاصح. خانية.... وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد، وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.
(قوله في غير الكفء) أي في تزويجها نفسها من غير كفء، وكذا له الاعتراض في تزويجها نفسها بأقل من مهر مثلها، حتى يتم مهر المثل أو يفرق القاضي كما سيذكره المصنف في باب الكفاءة (قوله فيفسخه القاضي) فلا تثبت هذه الفرقة إلا بالقضاء لأنه مجتهد فيه وكل من الخصمين يتشبث بدليل، فلا ينقطع النكاح إلا بفعل القاضي والنكاح قبله صحيح يتوارثان به إذا مات أحدهما قبل القضاء وهذه الفرقة فسخ لا تنقص عدد الطلاق، ولا يجب عندها شيء من المهر إن وقعت قبل الدخول وبعده لها المسمى وهذا بعد الخلوة الصحيحة، وعليها العدة ولها نفقة العدة لأنها كانت واجبة فتح، ولها أن لا تمكنه من الوطء حتى يرضى الولي كما اختاره الفقيه أبو الليث لأن الولي عسى أن يفرق فيصير وطء شبهة.
الدر المختار مع رد المحتار: (87/3، ط: دار الفكر)
(وتعتبر) الكفاءة للزوم النكاح خلافا لمالك (نسبا فقريش) بعضهم (أكفاء) بعض (و) بقية (العرب) بعضهم (أكفاء) بعض، واستثنى في الملتفى تبعا للهداية بني باهلة لخستهم، والحق الاطلاق. قاله المصنف كالبحر والنهر والفتح والشرنبلالية، ويعضده إطلاق المصنفين كالكنز والدرر، وهذا في العرب.
(قوله وأما في العجم) المراد بهم من لم ينتسب إلى إحدى قبائل العرب، ويسمون الموالي والعتقاء كما مر وعامة أهل الأمصار والقرى في زماننا منهم، سواء تكلموا بالعربية أو غيرها إلا من كان له منهم نسب معروف كالمنتسبين إلى أحد الخلفاء الأربعة أو إلى الأنصار ونحوهم.
و فيه أيضا: (286/3، ط: دار الفكر)
(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی