سوال:
السلام علیکم! میں 26 سالہ خاتون ہوں اور میرا ماسٹرز اسلامیات میں ہے، مجھے شادی کے حوالے سے ایک مشورے کی ضرورت ہے۔
میرا نکاح اپنے کزن (عمر 29 سال) سے 2.5 سال پہلے ہوا تھا اور رخصتی کو 6 ماہ ہوئے ہیں۔ ان کی تعلیم صرف بارہویں جماعت تک ہے، نہ کوئی ہنر ہے اور نہ ہی موٹر سائیکل چلانی آتی ہے۔ وہ بچپن سے ہی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بہت سست ہیں، ہر چیز بہت دیر سے سمجھتے یا سیکھتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی اور نہ ہی کوئی کام کرتے تھے، صرف تقریباً آٹھ ماہ پہلے انہوں نے بہت کم تنخواہ والی ایک ملازمت شروع کی ہے اور وہ بھی ابھی مستقل نہیں ہے۔
جب رشتہ آیا تو سب نے کہا کہ اخلاق دیکھو، وہ آگے بہتر ہو جائے گا، تمہیں مادّی چیزوں کو نہیں دیکھنا چاہیے، شکر کرو کہ سسرال رشتے دار ہیں، کمانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو میں نے استخارہ کیا اور ہاں کر دی۔
نکاح کے بعد ان دو سالوں میں میں نے بار بار کہا کہ کوئی نوکری کرو، اپنی تعلیم مکمل کرو، کم از کم موٹر سائیکل چلانا تو سیکھ لو۔ وہ ہمیشہ کہتے "ہاں بعد میں" اور وہ ’’بعد میں‘‘ کبھی نہیں آیا۔ رخصتی سے کچھ وقت پہلے انہوں نے نوکری اس وجہ سے شروع کی کہ میری والدہ نے کہا تھا کہ اگر وہ کماتا نہیں تو رخصتی نہیں ہوگی (اور وہ نوکری بھی کسی ریفرنس سے ملی)۔ میں راضی نہیں تھی، مگر نکاح ہو چکا تھا اور خالہ نے کہا کہ اگر طلاق ہوئی تو وہ خاندان سے تعلق ختم کر دیں گی۔ مجھے اپنی والدہ کی فکر تھی کہ ان کے رشتے خراب نہ ہوں تو میں نے رخصتی کے لیے ہاں کر دی۔
رخصتی کے بعد شروع میں سب ٹھیک تھا، مگر میں نے دیکھا کہ ان کا دن بالکل غیر عملی ہوتا ہے۔ وہ سارا دن بس لیٹے رہتے ہیں اور موبائل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ نہ کوئی مستقبل کی پلاننگ ہے اور نہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔ ہم نے اب تک ازدواجی تعلق بھی قائم نہیں کیا، وہ کبھی کوشش ہی نہیں کرتے۔
ہر چیز کو ٹالتے رہتے ہیں، مثال کے طور پر ہم نے اپنے سلامی کے پیسوں سے موٹر بائیک خریدی، مگر انہوں نے کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ جب بھی میں کہتی کہ ہم نے لی ہے تو چلانا تو سیکھو، وہ کہہ دیتے ’’بعد میں‘‘ اور وہ ’’بعد میں‘‘ بھی کبھی نہیں آتا۔
جب میں ان سے اپنے مسائل کی بات کرتی ہوں تو وہ یا تو کانوں میں ہیڈ فون لگا لیتے ہیں یا مجھے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مجھے خود پر بہت بوجھ محسوس ہونے لگا، میرا اعتماد ٹوٹ گیا، ذہن الجھن کا شکار ہو گیا، ان میں بہت انا (ego) ہے، اور جب میری والدہ نے ان کی والدہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’لڑکی کو سمجھوتہ کرنا چاہیے، وہ مرد ہے، وہ گھر کا حاکم ہے، اسے ماننا چاہیے۔‘‘ ان چھ مہینوں میں میں ان سے بہت دور ہوتی گئی۔
اب میں اپنی امی کے گھر ہوں اور میں علیحدگی چاہتی ہوں، وجہ ازدواجی تعلق کا نہ ہونا اور ان کا متکبرانہ رویہ ہے۔ جب سسرال کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا ٹیسٹ کروایا ہے، اسے کوئی کمزوری نہیں‘ اور وہ کہتے ہیں کہ میرا صرف اعتماد کم ہے۔ پھر انہوں نے ایک ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نے کہا کہ اس کا IQ کم ہے، اس لیے زندگی کے فیصلوں میں اور سمجھنے میں اسے مشکل پیش آئے گی۔
اب میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، کیا میرا یہ فیصلہ ٹھیک ہے؟ اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق شرعاً ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اس لیے عورت کے لیے طلاق کے مطالبے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، خصوصاً نئے جوڑے کو اس معاملے میں بہت احتیاط سے فیصلہ کرنا چاہیے، کیونکہ انسانی مزاجوں میں فرق ایک طبعی معاملہ ہے اور اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے درمیان ذہنی اور قلبی میلان اور ان کے آپس کے اتحاد و اتفاق میں کچھ عرصہ لگنا ایک فطری تقاضا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے سمجھ دار اور دین دار لوگ مل بیٹھ کر میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ابھاریں اور خصوصی طور پر مرد کو علاج و معالجہ کی تلقین کریں تاکہ وہ ازدواجی تعلق قائم کرنے پر قادر ہوسکے۔
اس کے بعد بھی اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو بیوی کے لیے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ ایسی صورت میں بیوی کو لٹکائے نہ رکھے، بلکہ اسے طلاق دے کر آزاد کردے۔
اس صورت میں اگر شوہر طلاق پر آمادہ نہ ہوتا ہو اور شوہر اب تک ہمبستری پر بھی قادر نہ ہو تو عورت مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ عدالت سے نکاح فسخ کراسکتی ہے:
1) عورت کو نکاح سے پہلے شوہر کے نامرد ہونے کا علم نہ ہو۔
2) نکاح کے بعد اب تک شوہر نے ایک مرتبہ بھی ہمبستری نہ کی ہو۔
3) شوہر کی نامردی کا معلوم ہونے کے بعد بیوی نے شوہر کے نکاح میں رہنے پر ایک مرتبہ بھی زبان سے رضامندی ظاہر نہ کی ہو، محض ساتھ رہنا رضامندی کی دلیل نہیں ہے۔
اگر ان شرائط میں سے کوئی بھی شرط نہ پائی جائے تو عورت کو عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح کا اختیار حاصل نہ ہوگا، لیکن اگر یہ شرائط پائی جائیں تو عورت مسلمان قاضی کی عدالت میں شوہر کی نامردی کی بنیاد پر فسخِ نکاح کا دعوی دائر کرے، قاضی شوہر کو ایک سال کی مہلت دے گا، اگر شوہر اس دوران بھی تندرست نہ ہو تو عورت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار دے گا، اگر عورت اسی مجلس میں جدائی کو اختیار کرلے تو قاضی ان کا نکاح فسخ کردے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (228/3، ط: دار الفكر )
وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: ٣٤] أي لا تطلبوا الفراق.
الھندیة: (522،524/1، ط: دار الفکر)
هو الذي لا يصل إلى النساء مع قيام الآلة، فإن كان يصل إلى الثيب دون الأبكار أو إلى بعض النساء دون البعض، وذلك لمرض به أو لضعف في خلقه أو لكبر سنه أو سحر فهو عنين في حق من لا يصل إليها كذا في النهاية.
إن مضت السنة من وقت الأجل ولم تخاصمه زمانا لا يبطل حقها، وإن طاوعته في المضاجعة في تلك المدة كذا في فتاوى قاضي خان وعليه الفتوى كذا في الفتاوى الكبرى.
إن علمت المرأة وقت النكاح أنه عنين لا يصل إلى النساء لا يكون لها حق الخصومة، وإن لم تعلم وقت النكاح وعلمت بعد ذلك كان لها حق الخصومة ولا يبطل حقها بترك الخصومة، وإن طال الزمان ما لم ترض بذلك كذا في فتاوى قاضي خان.
فتاوی عثمانی: (473/2، ط: مکتبہ معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی