سوال:
ایک مرحوم شخص کے ورثاء میں سے ایک وارث نے اپنے والد کے بیس لاکھ روپے مقروض سے لے لیے اور باقی ورثاء کو نہیں بتایا اور سارے پیسے ختم کردیے، مقروض یہ پوچھ رہا ہے کہ کیا میرا ذمہ ادا ہوگیا ہے یا مجھے باقی ورثاء کو بھی بتانا ہوگا کہ آپ کے والد کے پیسے میرے اوپر ادھار تھے اور آپ کا یہ بھائی وہ پیسے وصول کر چکا ہے؟
جواب: اگر يہ وارث مرحوم کا وصی (جانشین) تھا یا دیگر ورثاء نے اس کو اپنے اپنے حصے وصول کرنے کی صراحتاََ یا دلالتاََ اجازت دی تھی (مثلاً: اس نے دوسروں کو اطلاع کردی اور انہوں نے اس پر رضامندی یا خاموشی اختیار کرلی یا منتظم یا بڑا ہونے کی حیثیت سے دلالتا سب کی طرف سے اس کو اجازت تھی) تو ایسی صورت میں قرض دار کا اس شخص کو مرحوم کا سارا قرضہ دینے سے اس کی ذمہ داری ختم ہوگئی، لیکن اگر ان میں سے کوئی صورت نہ ہو تو مقروض کی ذمہ داری ختم نہیں ہوگی اور دیگر ورثاء کو اس سے مطالبہ کا حق بدستور باقی رہے گا، لہٰذا ان کے مطالبہ کرنے پرمقروض کو ان کے حصے دینا لازم ہوگا اور وہ اس وارث سے دیگر ورثاء کے حصے واپس لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (299/4، ط: دار الفكر)
(وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ فتح وسيجيء متنا في الصلح.
وأن من حيل اختصاصه بما أخذه أن يهبه المديون قدر حصته ويهبه رب الدين حصته وهبانية (بإرث أو بيع أو غيرهما) بأي سبب كان جبريا أو اختياريا ولو متعاقبا؛ كما لو اشترى شيئا ثم أشرك فيه آخر منية.
(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام: (53/3، ط: دار الکتب العلمية)
( إذا كان لاثنين أو أكثر في ذمة واحد دين ناشئ عن سبب واحد فهو دين مشترك بينهم شركة ملك , وإذا لم يكن سببه متحدا فليس بدين مشترك.
رد المحتار: (307/4، ط: دار الفكر)
يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.
امداد الفتاوى جديد مطول حاشية: (8/73)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی