سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک مسئلے سے متعلق رہنمائی درکار ہے۔
1) 2007 میں ہمارے والد محترم کا انتقال ہوا، ہم پانچ بہن بھائی (یعنی ایک بھائی اور چار بہنیں) ہیں، والد صاحب نے ترکے میں ایک مکان چھوڑا ہے جس کی مالیت آج کے موجودہ وقت کے اعتبار سے اندازاً 30 لاکھ ہوگی (اور اُس وقت کے اعتبار سے شاید بہت کم ہوگی)، جس میں ہمارا بھائی تا حال رہائش پذیر ہے، بھائی نے بہنوں سے رضامندی پوچھے بغیر اپنی مرضی سے 2015 میں اس گھر کو مسمار کرکے اسی زمین پر تعمیر وغیرہ کی جس سے آج اس کی مالیت اندازاً 60 لاکھ ہوگئی ہے، اب ہم پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ میراث کی تقسیم میں صرف زمین کا حساب لگایا جائے گا یا مکمل عمارت کا؟
2) عمارت میں 2007 کی عمارت کا اعتبار کر کے میراث تقسیم کی جائے گی یا آج کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا؟
3) پہلے بھائی کی مالی حالت ٹھیک نہ تھی، البتہ اس گھر میں وہ رہائش پذیر تھا۔ بہنوں نے اٹھارہ سال بعد میراث میں حصے کا تقاضا کیا ہے۔ ہمارا بھائی ہمیں میراث دینے پر راضی ہے، البتہ اس کا کہنا یہ ہے کہ پرانی تعمیر تو میں نے ختم کردی، نئی تعمیر پر میری ذاتی رقم لگی ہے۔ لہذا زمین کی قیمت کے اعتبار سے حصہ بنے گا اور اس میں سے بھی مکمل ہر ایک بہن کو شرعی حصہ نہیں دے سکتا، میرے پاس جو رقم ہے وہ لے لیں باقی معاف کر دیں، اور ہم بہنیں اس کو قبول کر لیں تو اس میں شرعی اعتبار سے کوئی حرج تو نہیں؟
4) اگر ہم میں سے کوئی بہن یہ کہے کہ مجھے مکمل حصہ درکار ہے، اور بھائی اسے رشتے کی نزاکت کا جذباتی بیان دیتے ہوئے اپنی مجبوری (بقول اس کے) بتاتے ہوئے گزارش کرے اور کہے کہ میری زندگی بہت کم رہ گئی ہے بیمار رہتا ہوں مجھے ذہنی تناؤ ہوگا تو بہن مجبوراً وہ رقم تسلیم کر سکتی ہے کہ اس کا رشتہ بحال رہے؟
5) ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک بہن کو شرعی اعتبار سے اس میں کتنا حصہ ملے گا؟
جواب: 1) مشترکہ زمین میں تعمیر کرنے والے بھائی کو تعمیر پر لگائی ہوئی رقم ملے گی یا نہیں؟ اس میں درج ذیل تفصیل ہے:
الف) اگر اس بھائی نے دیگر شریک ورثاء کی اجازت سے قرض، شراکت داری یا کسی قسم کی ملکیت کی صراحت کے ساتھ اپنے لیے تعمیرات کروائی ہو تو اس صورت میں جتنی رقم اور اخراجات مکان کی تعمیرات میں کیے تھے، وہ اس بھائی کو ملیں گے۔
ب) اور اگر اس بھائی نے تمام ورثاء کی اجازت لیے بغیر سب کے لیے یہ تعمیرات کروائی تھی تو اس صورت میں تعمیر میں لگائی گئی یہ رقم اور اخراجات اس بھائی کی طرف سے تبرع و احسان ہوں گے اور اس کو تعمیرات پر لگائی ہوئی رقم اور اخراجات نہیں ملیں گے۔
ج) اگر یہ تعمیرات ورثاء کی اجازت کے بغیر اس بھائی نے اپنے لیے کی تھی تو اس کو اپنی تعمیر کردہ عمارت کے بدلہ میں صرف اس عمارت کے ملبے کی قیمت ملے گی۔
نوٹ: اگر مشترکہ مکان میں تعمیر کرانے کا دوسرے شریک ورثاء کو معلوم تھا، اس کے باوجود انہوں نے منع نہیں کیا ہو تو ایسی صورت میں منع نہ کرنا اور خاموش رہنا رضامندی پر محمول ہوگا، اس صورت میں بھی تعمیرات پر لگائی ہوئی رقم ملے گی۔
2) چیزوں کی قیمت کا تعین موجودہ قیمت کے اعتبار سے لگایا جائے گا اگرچہ میراث کئی سالوں بعد تقسیم ہو رہی ہو۔
3/4) مورث کی وفات کے بعد جہاں تک کسی وارث کا اپنے حصہ سے دستبرداری اختیار کرنے یا اپنا حق معاف کرنے کا تعلق ہے تو چونکہ وہ شخص مال میراث میں اپنے حصہ کا حقدار بن چکا ہوتا ہے، اس لئے اگر وہ اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہے تو شرعاً اس کی اجازت ہے، البتہ ایسے موقع پر ہمارے معاشرے میں بالخصوص بہنوں کو بہت سے علاقوں میں میراث سے حصہ نہیں دیا جاتا، اور بہنیں بھی بادل ناخواستہ اپنا حق معاف کرنے کا اظہار کردیتی ہیں یا ان سے معاف کروایا جاتا ہے، (جیسا کہ سوال میں ہے) لہذا ایسے موقع پر ان کی دلی رضامندی (طیبِ نفس) کا معلوم کرنا مشکل ہے، اس لئے ایسے موقع پر ضروری ہے کہ بہنوں کو ان کا حصہ ان کے قبضہ میں دیدیا جائے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشدلی سے واپس کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔
5) مرحوم والدین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو کل چھ (6) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیٹے کو دو (2) اور چاروں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے بیٹے کو %33.33 فیصد حصہ اور چاروں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %16.66 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة: 11)
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ...الخ
درر الحکام: (26/3، ط: دار الجیل)
(المادة 1073) (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."
تنقیح الحامدیه: (157/2)
( سئل ) فيما إذا بنى زيد قصرا بماله لنفسه في دار مشتركة بينه وبين إخوته بدون إذنهم فهل يكون البناء ملكا له ( الجواب ) : نعم وإذا بنى في الأرض المشتركة بغير إذن الشريك له أن ينقض بناءه ذكره في التتارخانية من متفرقات القسمة . ( سئل ) في دار مشتركة بين جماعة بنى فيها بعضهم بناء لأنفسهم بآلات هي لهم بدون إذن الباقين ويريد بقية الشركاء قسمة نصيبهم من الدار المذكورة وهي قابلة للقسمة فهل لهم ذلك وما حكم البناء ؟ ( الجواب ) : حيث كانت قابلة للقسمة وينتفع كل بنصيبه بعد القسمة فلبقية الشركاء ذلك ثم البناء حيث كان بدون إذنهم إن وقع في نصيب البانين بعد قسمة الدار فبها ونعمت والا هدم البناء
الدر المختار مع رد المحتار: (268/6، ط: سعید)
( بنى أحدهما ) أي أحد الشريكين ( بغير إذن الآخر ) في عقار مشترك بينهما ( فطلب شريكه رفع بنائه قسم ) العقار ( فإن وقع ) البناء ( في نصيب الباني فيها ) ونعمت ( وإلا هدم ) البناء وحكم الغرس كذلك قوله ( وإلا هدم البناء ) أو أرضاه بدفع قيمته
درر الحكام: (314/3، ط: دار الجيل)
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.
رد المحتار: (333/4، ط: الحلبي)
والحمام إذا احتاج إلى مرمة وأنفق أحد الشريكين من ماله، أجاب: لا يكون متبرعا ويرجع بقيمة البناء بقدر حصته كما حققه في جامع الفصولين، وجعل الفتوى عليه في الولوالجية
و فیه ایضا: (335/4)
ولو بنى فالصحيح أنه يرجع لما مر أنه مضطر، ثم في كل موضع لم يكن الباني متبرعا كان له منع صاحبه من الانتفاع إلى أن يرد عليه ما أنفق أو قيمة البناء
تکملة رد المحتار: (505/7، ط: دار الفکر)
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط.
بدائع الصنائع: (244/5، ط: دار الکتب العلمیة)
فالتسليم، والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائع.
کتاب النوازل: (521/18، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی