resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کئی سال بعد میراث کا مطالبہ کرنا (32348-No)

سوال: بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته!
میری والدہ کے والد اور ان کے دو بھائی تھے۔ کچھ عرصے بعد میرے نانا کا انتقال ہوگیا، اس وقت میری والدہ عمر میں چھوٹی تھیں۔ جب میری والدہ کی شادی ہوئی تو میری والدہ نے اپنے چچاؤں سے کہا کہ میرا وراثتی حصہ بنتا ہے، وہ مجھے دے دیں۔ اس پر چھوٹے چچا نے کہا کہ اگر بڑے چچا دیں گے تو میں بھی دے دوں گا۔ اسی طرح یہ معاملہ وقت کے ساتھ ٹلتا رہا، یہاں تک کہ چھوٹے چچا کا انتقال ہوگیا۔
بعد میں بڑے چچا سے بھی بار بار مطالبہ کیا گیا، لیکن وہ بھی حصہ دینے سے گریز کرتے رہے اور ٹال مٹول کرتے رہے، پھر جب بڑے چچا کا انتقال ہوا تو میری والدہ ان کی میت پر گئیں اور وہاں یہ کہا کہ: "آپ تو دنیا سے چلے گئے ہیں، مگر میں اپنے حق کو معاف نہیں کرسکتی۔"
اب میں اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ والدہ کے چچا کے بیٹوں سے کر رہا ہوں، لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے بڑوں نے (یعنی ان کے والدین نے) وہ حصہ نہیں دیا، اس لیے ہم بھی نہیں دیں گے اور تمہارا کوئی حق نہیں بنتا۔ مزید یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ تمہاری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، اس لیے تمہیں بھی حصہ نہیں مل سکتا۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا شرعاً ہمارا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم کافی عرصے بعد مطالبہ کر رہے ہیں، اور ایک قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ اتنے سال بعد تم نے مطالبہ کیا ہے، اس لیے اب تمہارا حق ختم ہوگیا ہے، لہذا آپ شرعی طور پر ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کیا واقعی ہمارا حصہ بتنا ہے یا نہیں؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ کی مرحومہ والدہ کو ان کے چچاؤں کی طرف سے ان کا شرعی حصہ نہیں دیا گیا تھا تو آپ اپنی مرحومہ والدہ کی میراث کا مطالبہ ان کے چچاؤں کے بچوں سے کرسکتے ہیں، مرحومہ والدہ کے چچاؤں کے بچوں پر لازم ہے کہ وہ آپ کی مرحومہ والدہ کا شرعی حصہ ان کے شرعی ورثاء کو دے دیں، ورنہ آخرت میں پوچھ ہوگی جو سخت عذاب اور پکڑ کا باعث بن سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشکوٰۃ المصابیح: (کتاب الدعویٰ، باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».

و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة».

بدائع الصنائع: (کتاب الغصب،فصل في حكم الغصب: 7/ 148، ط: دار الكتب العلمية)
"وأما حكم الغصب فله في الأصل حكمان: أحدهما: يرجع إلى الآخرة، والثاني: يرجع إلى الدنيا. أما الذي يرجع إلى الآخرة فهو الإثم واستحقاق المؤاخذة إذا فعله عن علم؛ لأنه معصية، وارتكاب المعصية على سبيل التعمد سبب لاستحقاق المؤاخذة، وقد روي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين يوم القيامة» ...(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب۔"

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية: (2/ 4، ط: دارالمعرفة)
ثم اعلم أن عدم سماع الدعوى بعد مضي ثلاثين سنة أو بعد الاطلاع على التصرف ليس مبنيا على بطلان الحق في ذلك وإنما هو مجرد منع للقضاة عن سماع الدعوى مع بقاء الحق لصاحبه حتى لو أقر به الخصم يلزمه ولو كان ذلك حكما ببطلانه لم يلزمه ويدل على ما قلناه تعليلهم للمنع بقطع التزوير والحيل كما مر فلا يرد ما في قضاء الأشباه من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان. ثم رأيت التصريح بما قلناه في البحر قبيل فصل دفع الدعوى وليس أيضا مبنيا على المنع السلطاني كما في المسألة الآتية بل هو حكم اجتهادي نص عليه الفقهاء كما رأيت فاغتنم تحرير هذه المسألة فإنه من مفردات هذا الكتاب والحمد لله المنعم الوهاب.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster