عنوان: جہاں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں، وہاں جمعہ پڑھنے کا حکم (10102-No)

سوال: جس گاؤں یا بستی میں جمعہ کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں اور وہاں جمعہ کی نماز ادا کر لی جائے تو کیا ظہر کی فرضیت ساقط ہو جائے گی یا ذمہ میں باقی رہے گی؟

جواب: اگر اس گاؤں یا بستی میں جمعہ جائز ہونے کی شرائط نہ پائی جائیں تو وہاں جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہے، ایسی جگہ اگر جمعہ کی نماز ادا کرلی جائے تب بھی اس سے فریضہ ساقط نہ ہوگا، بلکہ ظہر کی نماز ذمہ میں باقی رہے گی، لہٰذا جتنے دن وہاں جمعہ کی نماز پڑھی ہے، ان تمام دنوں کی ظہر کی قضاء لازم ہے۔
تاہم اگر یہ قضاء نمازیں کئی سالوں کی ہوں تو چونکہ کئی سالوں کی نمازوں کی قضاء کرنے میں حرج معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس صورت میں قضاء سے متعلق حکم میں تفصیل یہ ہے کہ اگراس جگہ جمعہ کی نماز کی ابتداء کسی مستند عالمِ دین کے مشورے سے کی گئی ہو، نیز حضراتِ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کے نزدیک وہاں جمعہ پڑھنا جائز ہو سکتا ہو تو اس صورت میں اگر اب تک پڑھی ہوئی نمازوں کی قضاء نہ کی جائے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
تاہم فرض نماز کی وجہ سے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس صورت میں بھی آپ میں سے جو لوگ جتنی نمازوں کی قضاء کرسکتے ہیں، وہ قضاء کرلیں اور آئندہ اس گاؤں یا بستی میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الآثار لأبي يوسف: (60/1، ط: دار الكتب العلمية)
297 - قال: وثنا يوسف بن أبي يوسف عن أبيه عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، عن أبي الأحوص، عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه قال في التكبير أيام التشريق: " من دبر صلاة الفجر يوم عرفة إلى دبر صلاة العصر من يوم النحر، وكان يكبر فيقول: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد". وزعم أبو حنيفة أنه بلغه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع.

مصنف ابن أبي شيبة: (45/4، رقم الأثر: 5098، ط: دار القبلة)
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : لاَ جُمُعَةَ ، وَلاَ تَشْرِيقَ إِلاَّ فِي مِصْرٍ جَامِعٍ.

الدر المختار مع رد المحتار: (167/2، ط: دار الفكر)
وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة......وفي الرد تحته: (قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح

رد المحتار: (137/2)
عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ بَلْدَةٌ كَبِيرَةٌ فِيهَا سِكَكٌ وَأَسْوَاقٌ وَلَهَا رَسَاتِيقُ وَفِيهَا وَالٍ يَقْدِرُ عَلَى إنْصَافِ الْمَظْلُومِ مِنْ الظَّالِمِ بِحِشْمَتِهِ وَعِلْمِهِ أَوْ عِلْمِ غَيْرِهِ يَرْجِعُ النَّاسُ إلَيْهِ فِيمَا يَقَعُ مِنْ الْحَوَادِثِ وَهَذَا هُوَ الْأَصَحُّ اه ۔۔۔۔ في الجواهرلو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم.إلخ۔۔

کذا في تبویب فتاویٰ دار العلوم كراتشي: رقم الفتوى: 74/1930

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 671 Dec 26, 2022
jaha juma ki sharait na pai jain, waha juma parhne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.