سوال:
مفتی صاحب! غیر شادی شدہ بچیوں کی نان و نفقہ کی ذمہ داری دونوں حالتوں (بلوغت اور اس سے پہلے) کس کے ذمہ ہے؟ نیز اگر باپ کا انتقال ہوچکا ہو تو ان دونوں حالتوں میں یہ ذمہ داری شرعاً کس پر ہوگی؟ اس کا جواب قرآن وسنت کی روشنی وضاحت سے دے دیں جزاکم اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ لڑکی کا نفقہ پیدائش سے لے کر اس کی شادی ہونے تک باپ کے ذمہ شرعاً لازم ہے، البتہ شادی ہونے کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم ہوگا، لیکن اگر باپ کا انتقال ہو جائے اور لڑکی کسی کے نکاح میں نہ ہو، خواہ بالغ ہو یا نابالغ تو اس کے نفقہ میں تفصیل یہ ہے کہ اگر لڑکی کی ملکیت میں اپنا مال نہ ہو اور وہ محتاج ہو تو اس کا نفقہ اس کے ممکنہ موجودہ ورثاء پر ان کے شرعی حصوں کے مطابق لازم ہوگا (یعنی اگر اس لڑکی کا انتقال ہو جائے تو موجودہ رشتے داروں میں سے جو لوگ اس کے مال میں اس کے شرعی ورثاء بنیں گے تو ان پر اپنے حصہ میراث کے تناسب سے اس کا خرچہ لازم ہوگا)۔
چنانچہ اگر اس کا دادا اور اس کی والدہ دونوں حیات ہوں اور دونوں لڑکی کی کفالت کی مالی استطاعت رکھتے ہوں تو اس کا نفقہ ماں کے ذمہ ایک تہائی اور دادا کے ذمہ دو تہائی لازم ہوگا، لیکن اگر ماں استطاعت نہ رکھتی ہو تو دادا کے ذمہ پورا نفقہ لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر لڑکی کا دادا نہ ہو صرف ماں، بھائی اور بہنیں ہوں اور سب مالی استطاعت رکھتے ہوں تو لڑکی کے نفقہ کا چھٹا حصہ اس کی ماں پر اور باقی اس کے بھائیوں اور بہنوں پر تقسیم ہوگا، بھائی کے ذمہ دو حصے اور بہن پر ایک حصہ لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتاوى قاضى خان: (فصل في نفقة الاولاد، 34/3، ط: رشيدية)
نفقه الاولاد الصغار والاناث المعسرات على الاب لا يشاركه في ذلك أحد ولا تسقط بفقره.
وفيه أيضاً: (فصل في نفقة الاولاد، 37/3، ط: رشيدية)
وفي ظاهر الرواية البنت البالغة والغلام البالغ الزمن بمنزلة الصغير نفقته تكون على الأب خاصة و أبو الأب عند عدم الأب في النفقة بمنزلة الأب.
الهندية: (37/3)
الذكور من الاولاد اذا بلغوا حد الكسب ولم يبلغوه في أنفسهم يدفعهم الأب الى عمل ليكسبوا او يؤاجرهم وينفق عليهم من اجرتهم وكسبهم واما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل او خدمة كذا في الخلاصه.
وفيه أيضاً: (42/3، 43)
والنفقه لكل دي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا أو كانت امراة بالغة فقيرة أو كان ذكرا فقيرا زمنا أو أعمى ويجب ذلك على قدر الميراث ويجبر كذا في الهداية وتعتبر أهلية الإرث لا حقيقته كذا في النقايه.
وتجب نفقه الإناث الكبار من ذوي الارحام وان كن صحيحات البدن اذا كان بهن حاجة الى النفقة كذا في الذخيرة ولا يشارك الزوج في نفقة زوجته أحد.
ولو كان له أم وجد فان نفقته عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما الثلث على الأم والثلثان على الجد.
بدائع الصنائع: (178/5، ط: رشيدية جديد)
وكذلك إذا كان له أم و أخ لأب و أم .. كانت النفقة عليهما أثلاثا ثلثها على الأم والثلثان على الأخ.... وكذلك إذا كان له أخ لأب و أم و أخت لأب و أم كانت النفقة عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی