سوال:
میں گذشتہ 15 سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا اور میں اپنی والدہ محترم سعیدہ ناز اور چھوٹے بھائی محمد عدنان قریشی اور اس کی فیملی (ایک بیوئی اور چار بچے ) کے کل اخراجات کی مالی معاونت 14 سال تک کرتا رہا۔ میری والدہ محترمہ سعیدہ ناز نے اپنے لیے ایک لائف انشورنس اسٹیٹ لائف انشورنس کے ذریعے بک کرانا چاہی، جس پر انشورنس ایجنٹ نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کی عمر بہت زیادہ ہے، آپ کی انشورنس نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ اپنے بیٹے محمد عدنان قریشی کے نام پر لے لیں تو یہ انشورنس قابل قبول ہوگی، اس پر میری والدہ نے اپنے چھوٹے بیٹے عدنان قریشی کے نام پر انشورنس لے لی۔ اللہ کی مصلحت کہ میرے چھوٹےبھائی عدنان قریشی کا انتقال ہو گیا۔ میری والدہ محترمہ نے اس بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں کی اور انشورنس کے سالانہ پریمیم میرے سعودیہ سے بھیجے گئے پیسوں سے ادا کرتی رہیں، اور اب انشورنس کمپنی نے وہ چیک میرے بھائی کی بیوہ کے نام پر ایشو کر دیا ہے۔
برائے مہربانی ہمیں یہ فتویٰ چاہیے کہ اسلامی قانون کے تحت اس انشورنس کے اصل حقدار کون ہیں؟ اور میری والدہ کا اس میں کتنے فیصد حصہ بنتا ہے، نیز میری رقم سے جو انشورنس پریمیم ادا کی گئی ہے، وہ مجھے ملے گی یا نہیں؟
جواب: بطور تمہید واضح رہے کہ مروجہ انشورنس شرعی لحاظ سے سود اور غرر (غیر یقینی کیفیت) جیسی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، لہذا مروجہ انشورنس پالیسی لینا شرعا درست نہیں ہے۔ اگر کسی نے پالیسی لے لی ہو، اور اس پر اسے کچھ رقم ملے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم (پریمیم) جو پالیسی ہولڈر نے وقتا فوقتا جمع کروائی ہے، اس حد تک رقم اس میں سے لی جاسکتی ہے، جبکہ اضافی رقم کو صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔
مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر مستند علماء کرام نے شرعی اصولوں کی روشنی میں تکافل کا نظام تجویز کیا ہے، لہذا جو تکافل کمپنی مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہی ہو، اس سے پالیسی لینا جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا کلیم اور نفع بھی جائز ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ پوچھی گئی صورت میں آپ جو رقم والدہ کو گھر کے اخراجات چلانے کیلئے تعاون اور ہدیہ کے طور پر بھیجتے رہے، (جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے) وہ رقم والدہ کی ہی سمجھی جائے گی، اور والدہ کا کسی وجہ سے محض کاغذی کارروائی کی حد تک بیٹے کے نام سے انشورنس پالیسی لینے سے یہ رقم بیٹے کی نہیں ہوگی، بلکہ والدہ کی ہی شمار ہوگی، لہذا انشورنس کمپنی سے ملنے والے چیک کا حکم یہ ہے کہ والدہ نے جتی رقم (پریمیم) جمع کروائی تھی، اس حد تک رقم لیکر بقیہ اضافی رقم صدقہ کردیں۔
مذکورہ حکم اس صورت میں ہے جب انہوں نے مروجہ انشورنس کمپنی سے پالیسی لی ہو، لیکن اگر انہوں نے شرعی اصولوں کے مطابق چلنے والی کسی تکافل کمپنی/ونڈو سے تکافل کی پالیسی لی ہو تو ایسی صورت میں اصل چیک کی مکمل رقم لینا اور اسے استعمال کرنا جائز ہے، نیز اصولی طور پر یہ ساری رقم والدہ ہی کی شمار ہوگی، تاہم اگر والدہ اپنی رضامندی سے آپ کو یا مرحوم بھائی کے بچوں کو اس میں سے کچھ یا کل رقم دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (405/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
فالذی یظهر انه لا ینبغی ان یعتبر التسجیل قبضا ناقلا للضمان فی الفقه الاسلامی، الا اذا صاحبته التخلیة بالمعنی الذی ذکرناه فیما سبق.
الفقه الاسلامی و ادلته: (5089/7، ط: دار الفکر)
1 - أن عقد التأمين التجاري ذا القسط الثابت الذي تتعامل به شركات التأمين التجاري عقد فيه غرر كبير مفسد للعقد. ولذا فهو حرام شرعاً.
2 - أن العقد البديل الذي يحترم أصول التعامل الإسلامي هو عقد التأمين التعاوني القائم على أساس التبرع والتعاون. وكذلك الحال بالنسبة لإعادة التأمين القائم على أساس التأمين التعاوني.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی