سوال:
ایک ایپ میں تمام پروڈیکٹ ہول سیل ریٹ پر موجود ہیں، مثال کے طور پر ایک کپڑا 1500 کا ہے، اب ہم اس کی مارکیٹنگ کرتے ہیں، 1800 میں گاہک سے ریٹ طے کر کے ایپ والے کو ایڈریس بھیج دیتے ہیں، وہ مال بھیجتے ہیں 1800 روپے گاہک سے لے کے 300 ہمارا پرافٹ اکاؤنٹ میں بھیج دیتے ہیں، اگر کسٹمر کو مال سمجھ نہ آئے اور مال ریٹرن ہوتا ہے تو کمپنی والے ڈیلیوری چارجز کو برداشت کرتے ہیں، ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ آیا کہ یہ معاملہ ٹھیک ہے؟
جواب: اگر متعلقہ کمپنی سے آپ کا باقاعدہ وکالت (agency) کا معاملہ ہے کہ آپ اس کی چیز بیچیں گے، اور بدلے میں اوپر والی رقم آپ کا کمیشن ہوگا تو اس طرح معاملہ کرنے کی گنجائش ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ کمیشن متعین طور پر طے کیا جائے۔
اور اگر آپ کا متلعقہ کمپنی سے وکالت کا معاملہ نہیں ہے تو پھر آپ کا اپنے طور پر کمپنی کی چیز کو آگے فروخت کرنے کا معاملہ شرعا درست نہیں ہوگا۔ اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے کمپنی سے وہ چیز خرید کر خود یا کسی آدمی کے ذریعے اس کو اپنے قبضے میں لے لیں، پھر اسے آگے گاہک کے ساتھ طے شدہ قیمت پر فروخت کردیں، یا پھر کمپنی کے ساتھ وکالت (کمیشن ایجنٹ) کا معاملہ کرلیں جس کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (13/3، ط: دار الفکر)
من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض.
الفتاوی الهندیة: (563/3، ط: دار الفکر)
وعلم الوكيل بالوكالة شرط عمل الوكالة.
فقه السنة: (230/3، ط: دار الکتاب العربی)
أركانها: الوكالة عقد من العقود، فلا تصح إلا باستيفاء أركانها من الايجاب والقبول.
صحیح البخاری: (92/3، ط: دار طوق النجاۃ)
وقال ابن عباس: "لا بأس أن يقول: بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا، فهو لك" وقال ابن سيرين: "إذا قال: بعه بكذا، فما كان من ربح فهو لك، أو بيني وبينك، فلا بأس به".
عمدۃ القاری: (93/12، ط: دار احیاء التراث العربی)
وفي (التلويح) : وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه: الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك: لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق.
الفقه الاسلامی و ادلته: (3326/5، ط: دار الفکر)
ولا بأس أن يقول شخص لآخر: بع هذا الشيء بكذا، وما زاد فهو لك، أو بيني وبينك، لما رواه أحمد وأبو داود والحاكم عن أبي هريرة: «المسلمون على شروطهم».
رد المحتار: (63/6، ط: دار الفکر)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام الخ.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی