resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: پولیس والے کی کم قیمت پر پھل کی خریداری (27073-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ ایک پولیس والا روز کافی پھل گھر میں لا کر دیتا ہے، وہ پھل اتنے جمع ہو جاتے ہیں کہ خراب ہونے پر سوچیں میں ڈالنا پڑتے ہیں، گھر والے پھل کی وجہ سے کافی پریشان ہو جاتے ہیں، معلوم نہیں کہ وہ پھل حلال ہے یا حرام؟ آپ سے پوچھنا تھا کہ کیا گھر والے وہ پھل آگے بہت کم قیمت میں فروخت کر سکتے ہیں تاکہ پھینکنے سے بچ جائیں؟
*تنقیح اول:*
آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہے آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ پولیس والے کا آپ سے کیا رشتہ ہے؟ اور وہ آپ کو پھل کیوں لیکر دیتا ہے؟ کیا وہ پھل خرید کر قیمت ادا کرتا ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
*جواب تنقیح:*
جی! وہ میرے شوہر ہیں اور بچوں کے کھانے کے لیے لاتے ہیں پھل کی قیمت دیتے ہیں لیکن کم قیمت میں ان کو پھل ملتے ہیں۔ گھر میں پھل کھانے والے تین ہیں، جن میں دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو اتنا نہیں کھا سکتے ہیں، پھل پھر خراب ہوتا ہے کچرے میں ڈالنا پڑتا ہے آس پاس مستحق لوگ موجود نہیں جن کو میں دے سکوں جو لوگ آس پاس رہتے ہیں کیا ان کو وہ پھل ہدیہ کے طور پر دیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا بہت ہی قیمت میں دیا جا سکتا ہے؟
*تنقیح ثانی:*
آپ درج ذیل باتوں کی بھی وضاحت فرمائیں:
1) کیا آپ کا شوہر مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت ادا کرتا ہے یا کم انتہائی کم قیمت پر پھل خریدتا ہے؟
2) اگر کم قیمت پر خریدتا ہے تو کیا آپ کا شوہر (پولیس والا) ان پھل والوں کو کوئی رعایت دیتا ہے؟ اڈ کے بارے میں بھی دوسرے عام لوگوں کی طرح قانون کے مطابق عمل کرتا ہے؟
*جواب تنقیح ثانی:*
وہ کم قیمت میں پھل لیتے ہیں، اس کے بدلہ میں پھل والے پھل والے کو جہاں وہ فروٹ فروخت کررہے ہیں منع نہیں کرتے۔

جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ کے شوہر (پولیس والے) کے لیے کم قیمت ادا کرکے زیادہ پھل لینا جائز نہیں ہے، یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے، پھل خریدتے وقت عام طور پر جتنی قیمت ادا کی جاتی ہے، اس کے بقدر پھل آپ لوگ استعمال کرسکتے ہیں، ادا شدہ قیمت سے زائد پھل کا استعمال آپ لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے، اس لیے قیمت سے زائد پھل یا اس کی قیمت پھل فروش کو دینا ضروری ہے، قیمت ادا کیے بغیر اس زائد مقدار کا پھل خود استعمال کرنا، کسی کو ہدیہ دینا یا فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (362/5، ط: دار الفکر)
الرِّشْوَةُ بِالْكَسْرِ مَا يُعْطِيهِ الشَّخْصُ الْحَاكِمَ وَغَيْرَهُ لِيَحْكُمَ لَهُ أَوْ يَحْمِلَهُ عَلَى مَا يُرِيدُ.

فقه البيوع: (‏1006/2، ط: مكتبه معارف القرآن)
أمّا فى بيان القسم الأوّل، نُعبّر عن جميع العقود الباطلة فيما يأتى بالمغصوب ‏والّذى يقبض هذاالمال الحرام بالغاصب. وذلك لسهولة التّعبير. ويشمل هذا ‏التّعبير كلَّ مالٍ حرامٍ لايملكه المرأ فى الشّرع، سواءٌ كان غصباً أو سرقةً أو رشوةً ‏أو رباً فی القرض، أو مأخوذاً ببيعٍ باطل.‏ وإنّه حرامٌ للغاصب الانتفاعُ به أو التّصرّفُ فيه، فيجبُ عليه أن يرُدّه إلى ‏مالكه، أو إلى وارثه بعد وفاتِه، وإن لم يُمكن ذلك لعدم معرفةِ المالك أو وارثه، ‏أولتعذّر الرّدّ عليه لسببٍ من الأسباب ، وجب عليه التّخلّصُ منه بتصدّقه عنه ‏من غير نيّةِ ثوابِ الصّدقةِ لنفسه وهذا الحكمُ عامٌّ سواءٌ أكان المغصوبُ عرْضاً ‏أم نقداً، لأنّ النّقودَ تتعيّنُ فى الغُصوب حتّى عند الحنفيّة الّذين يقولون بعدم ‏تعيّن النّقود، كما مرّ تحقيقُه ثم إن كان المغصوب قائما عند الغاصب بعينه، ‏تتعدى حرمته إلى من يأخذه من الغاصب شراءً أو هبةً أو إرثاً، وهو يعلم أنه ‏مغصوب.‏

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment