سوال:
اگر لڑکی کے ولی نے لڑکی کی رضامندی پوچھے بغیر ہی اپنی مرضی سے شادی طے کر دی ہو، جبکہ لڑکی نے واضح طور پر اس رشتے سے انکار کیا ہو اور بعد ازاں نکاح کے وقت ایجاب وقبول کے لیے زبان سے اقرار کروائے یا پوچھے بغیر ہی نکاح نامہ پر دستخط کروا لیے جائیں اور گواہان بھی وہ افراد ہوں جنہوں نے رشتہ طے کیا تھا تو کیا نکاح ہوگیا؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر لڑکی سے پوچھے بغیر ولی نے نکاح کیا تو یہ فضولی کا نکاح ہے، جو لڑکی کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، چنانچہ اگر ولی کے نکاح کرانے کے بعد لڑکی نے رد کیا ہو تو یہ نکاح ختم ہوگیا، لیکن اگر ولی کے نکاح کرانے کے بعد لڑکی نے رد نہیں کیا تھا اور پھر نکاح نامہ پر دستخط کردئیے تو یہ دستخط کرنا رضامندی کے علامت ہے، جس سے یہ موقوف نکاح منعقد اور نافذ ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (147/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)
الأصل أن كل عقد صدر من الفضولي وله مجيز انعقد موقوفا على الإجازة وقال الشافعي تصرفات الفضولي كلها باطلة؛ لأن العقد وضع لحكمه والفضولي لا يقدر على إثبات الحكم فيلغو ولنا أن ركن التصرف صدرمن أهله مضافا إلى محله ولا ضرر في انعقاده فينعقد موقوفا حتى إذا رأى المصلحة فيه ينفذه، وقد يتراخى حكم العقد عن العقد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی