سوال:
ہماری مسجد کے امام صاحب فرض نمازوں میں سال میں ایک مرتبہ الم سے لے کر والناس تک قرآن پڑھتے ہیں، جس میں دو سے تین ماہ کا وقت لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے قرآت زیادہ لمبی ہو جاتی ہے، کیا امام صاحب کا اس طرح فرض نمازوں میں ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرنے کا عمل درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ فرض نمازوں میں قراءت مسنونہ کی ترتیب کی رعایت کے ساتھ نماز پڑھانا مسنون ہے، یعنی نماز فجر اور ظہر کی فرض نمازوں میں "طِوَالِ مُفَصَّل" ( سورۃ الحجرات سے سورۃ البروج تک) میں سے کسى سورت کا پڑھنا، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں میں "اَوساط مُفَصَّل" (سورۃ البروج سے سورۃ البیّنۃ تک) میں سے کسى سورت کا پڑھنا اور مغرب کی فرض نماز میں "قِصَار مُفَصَّل" (سورۃ البیّنۃ سے سورۃ الناس تک) میں سے کسى سورت کا پڑھنا مسنون ہے، آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نمازوں میں جماعت کراتے ہوئے اکثر معمول مذکورہ بالا مسنون ترتیب سے تلاوت کرنے کا رہا ہے، لہذا فرض نمازوں میں اس مسنون ترتیب کا لحاظ رکھ کر تلاوت کرنا افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے، لہذا سنت ترتیب کو مستقل طور پر ترک کر کے فرض نمازوں میں ترتیب وار قرآن کریم کى تلاوت کرنے سے اگرچہ نماز تو ہو جائے گى، لیکن ایسا کرنا مکروہ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) ہے۔
نیز احادیث مبارکہ میں امام کو نماز پڑھاتے ہوئے مقتدیوں کی رعایت کی بہت تاکید کى گئى ہے، جبکہ اس ترتیب وار پورے قرآن کریم کى تلاوت کے سبب بعض اوقات قراءت مسنونہ کی مقدار سے زیادہ تلاوت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مقتدیوں کی رعایت نہیں ہو پاتی ہے، لہذا اگر مسنون مقدار سے زائد تلاوت کرنے کی وجہ سے مقتدیوں کو اذیت و پریشانى ہوتی ہو تو ایسا کرنا مکروہ تحریمى ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
ہاں! اگر امام صاحب اپنى انفرادى نماز (سنن و نوافل) میں ترتیب سے قرآن کریم کى تلاوت کرتے ہیں تو اس میں کوئى حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 90، 30/1، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رجل: يا رسول الله، لا أكاد أدرك الصلاة مما يطول بنا فلان، فما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في موعظة أشد غضبا من يومئذ، فقال: "أيها الناس، إنكم منفرون، فمن صلى بالناس فليخفف، فإن فيهم المريض، والضعيف، وذا الحاجة".
الدر المختار مع رد المحتار: (541/1، ط: دار الفكر)
"(و) يسن (في الحضر) لإمام ومنفرد- ذكره الحلبي- والناس عنه غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلى آخر - لم يكن - (أوساطه في العصر والعشاء، و) باقية (قصاره في المغرب) أي في كل ركعة سورة مما ذكره الحلبي،واختار في البدائع عدم التقدير، وأنه يختلف بالوقت والقوم والإمام (قوله واختار في البدائع عدم التقدير إلخ) وعمل الناس اليوم على ما اختاره في البدائع، رملي. والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار، «لأنه صلى الله عليه وسلم قرأ في الفجر بالمعوذتين لما سمع بكاء صبي خشية أن يشق على أمه»، وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملة فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام، وهكذا في الخلاصة".
الدر المختار: (564/1، ط: دار الفكر)
"يكره تحريما (تطويل الصلاة) على القوم زائدا على قدر السنة في قراءة وأذكار رضي القوم أو لا لإطلاق الأمر بالتخفيف نهر وفي الشرنبلالية ظاهر حديث معاذ أنه لا يزيد على صلاة أضعفهم مطلقا. ولذا قال الكمال إلا لضرورة، وصح أنه - عليه الصلاة والسلام - قرأ بالمعوذتين في الفجر حين سمع بكاء صبي".
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 2061/ 57
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی