سوال:
محکمہ اوقاف سے مسجد کی دکان کرایہ پر لینا کیسا ہے جبکہ اس دکان کا کرایہ دیگر پرائیویٹ دکانوں کی بنسبت بہت کم ہو؟
جواب: واضح رہے کہ اوقاف کی چیزوں میں وہ امور سرانجام دیے جاسکتے ہیں، جو وقف کے حق میں مفید ہوں۔
اس اصول کی بناء پر متولی وقف کا مسجد کی دکان کو اجرت مثل (اس جیسی دکان کا اس جگہ میں عام طور پر جو کرایہ چل رہا ہو) کے عوض کرائے پر دینا اور لینا دونوں جائز ہے، لیکن متولی وقف کے لیے ایسی دکان کو اجرت مثل سے کم کرائے کے عوض دینا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر ایسا کرنے میں مسجد کی کوئی مصلحت ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے، تاہم ایسی صورت میں بھی غیر معمولی طور پر کرایہ کم مقرر کرنا (جو اجرت مثل سے بہت کم ہو) شرعا درست نہیں ہے، اور اگر ایسا کیا گیا تو اجرت مثل کی حد تک کرایہ پورا کرنا متولی (نگران) کی ذمہ داری ہوگی، چاہے وہ خود سے پورا کرے یا کرایہ دار کو اس کے لیے قائل کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (402/4، ط: دار الفکر)
(و یؤجر ب) اجر (المثل) ف (لا) یجوز (بالاقل)
قوله: (فلا یجوز بالاقل) ای لا یصح اذا کان بغبن فاحش کما یاتی. قال فی جامع الفصولین الا عن ضرورة. وفی فتاوی الحانوتی شرط اجارة الوقف بدون اجرة المثل اذا نابته نائبة او کان دین.
و فیه ایضا: (20/6، ط: دار الفکر)
(یفتی بکل ما ھو انفع للوقف).
المعاییر الشرعیة: (رقم المعيار: 60، الوقف، ص: 1127، ط: ھیئة المحاسبة و المراجعة للمؤسسات المالیة الاسلامیة، بحرین)
٥/٨ لا تجوز اجارۃ الاعیان الموقوفة او المنافع الموقوفة باقل من اجرۃ المثل الا لمصلحة راجحة، فان اجرت باقل من اجرة المثل لغیر مصلحة راجحة و بغبن فاحش ضمن الناظر الفرق وعلیه المطالبة بفسخ العقد الا اذا قبل المستأجر الزیادة
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی