سوال:
میں ایک سرکاری اسکول میں ہائی اسکول ٹیچر ہوں، کیا فری ٹائم کے دوران جبکہ میری کلاس نہ ہو،میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی غرض سے باہر جا سکتا ہوں؟ اور کیا اس کے علاوہ اس ٹائم کے دوران میں اپنے ذاتی کام کاج یعنی گھریلو خریداری کے لیے اسکول سے باہر جا سکتا ہوں؟
جواب: شرعی لحاظ سے اسکول کے استاد کی حیثیت اجیر خاص (Time based employee) کی ہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ ڈیوٹی کے اوقات میں کام والی جگہ (اسکول) میں حاضر رہنا ضروری ہے اگرچہ کام نہ ہو، اس دوران طبعی اور شرعی تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے، لہذا فرض نماز اور سنتیں پڑھنے کے لیے مسجد جاسکتا ہے، البتہ ڈیوٹی کے اوقات کو ذاتی کاموں میں استعمال کرنا اصولی طور پر درست نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، تاہم اگر وقت فارغ ہو اور متعلقہ ادارے کی طرف سے اس کی اجازت ہو تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت ذاتی کام کیلئے باہر جاسکتے ہیں، لیکن ڈیوٹی اوقات میں ذاتی کاموں کیلئے باہر جانے کی عادت بنالینا مناسب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (70/6، ط: سعید)
وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى ... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة.
مجلة الاحکام العدلیة: (188/1، ط: نور محمد)
المادۃ 971 - کما یکون الاذن صراحۃ یکون دلالة ایضا مثلا لو رأی الصغیر الممیز یبیع و یشتری و سکت و لم یمنعه یکون قد اذنه دلالة
تبیین الحقائق: (204/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
قد یکون الاذن دلالة بالسکوت عندنا خلافا لزفر و الشافعی.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی