سوال:
ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ بینک اور انشورنس کمپنی جو تکافل بھی کرتی ہیں، سال کے شروع میں کلینڈر تحفے میں دیتی ہے تو کیا اس کا استعمال کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ ہماری کمپنی ان سے تکافل کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہو تو کیا کلینڈر وصول کرنے کے بعد کسی کو یہ کلینڈر دیے جا سکتے ہیں؟
جواب: سودی بینک اور انشورنس کمپنی کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہوتی ہے، اس لیے ان سے تحفہ لینے سے اجتناب بہتر ہے، تاہم سودی بینک اور انشورنس کمپنی (جو تکافل کا کام بھی کرتی ہے) کے پاس موجود ساری رقوم حرام کی نہیں ہوتیں، بلکہ عموما غالب رقوم حلال ہوتی ہیں، اس لیے ان سے کلینڈر وغیرہ بطور تحفہ لینے کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جاسکتا، تاہم کلینڈر لیکر اپنے دکان وغیرہ پر رکھنے سے چونکہ ان کے ناجائز اور سودی کام کی تشہیر و ترویج ہوسکتی ہے، اس لئے دکان وغیرہ پر لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے، تاہم اس سے صرف کلینڈر کے مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے گھر وغیرہ میں یا کسی ایسی جگہ رکھ سکتے ہیں، جہاں ان کے ناجائز کاروبار کی تشہیر و ترویج نہ ہوتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (1061/2، ط: معارف القرآن)
أموال البنك الربوي داخل في الصورة الثالثة من القسم الثالث، فیجوز التعامل معھا بقدر ما فیھا من الحلال.
فقه البیوع: (1032/2، ط: معارف القرآن)
أما إذا کان الحلال مخلوطا بالحرام دون تمییز أحدھما بالآخر فإنہ لا عبرة بالغلبة فی مذھب الحنفیة بل یحل الانتفاع من المخلوط بقدر الحلال سواء أکان الحلال قلیلا أم کثیرا.
فقه البیوع: (1070/2، ط: معارف القرآن)
یجوز التعامل المباح معھا [ای مع شرکات التامین] بشرط ان لا یؤدی الی الاعانة المباشرة فی عملیات التامین، و ان کان الاجتناب فی جمیع الصور اولی.
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی