سوال:
میں نے فیصل بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدی تھی، پہلے دو سال اس کی ماہانہ قسط 33 ہزار روپے تھی، تیسرا سال شروع ہوا تو بینک والے کہتے ہیں کہ آپ 38 ہزار کی قسط جمع کروائیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ جو اضافہ کررہے ہیں یہ تو سود ہوگا اس کے جواب میں بینک والوں نے کہا کہ ہم گاڑی کے رینٹ زیادہ کررہے ہیں اور یہ سود نہیں ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کے روشنی میں جواب دیجئے کہ یہ معاملہ جائز ہے یا نہیں اور اس میں سود تو نہیں ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جو بینک مستند علماء کرام کی زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہو، اس سے گاڑی لینا شرعا درست ہے، اس لئے کہ اسلامی بینک گاڑی یا تو اجارہ کی بنیاد پر دیتا ہے یا شرکت متناقصہ Diminishing) Musharakah) کے طور پر دیتا ہے، اور ان دونوں صورتوں میں بینک میں اپنے کسٹمر کے ساتھ کرایہ داری کا معاہدہ (Rental Agreement) بھی کرتا ہے، جس کے مطابق شرعا اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگلے سال کا کرایہ زیادہ مقرر کیا جائے، لہذا اگر سوال میں ذکر کردہ بینک شرعی اصولوں کے مطابق مستند علماء کی نگرانی میں اپنے معاملات سر انجام دے رہا ہو تو اگلے سال کے کرایہ میں اضافہ کرنا شرعا سود کے حکم میں نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (193/4، ط: دار الکتب العلمیة)
والأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي - صلى الله عليه وسلم - «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی