سوال:
ایک بھائی نے اور انکی فیملی نے رشتہ کرنے کے لئے ایک فیملی کے ہاں کئی بار معززین کو اور خود جا کر رشتہ طلب کیا، لڑکی کے والد اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کے بڑے بھائی اور ایک ماموں ہیں، بھائی راضی ہو گئے ماموں راضی نہ ہوئے، گھر کی کفالت زمین وغیرہ کاشت کر کے لڑکی کی والدہ خود کرتی تھیں، 1 سال تک بار بار رشتہ مانگنے پر انکار ہوا، لڑکی کے ماموں نے اپنی بھانجی زبردستی کسی رشتہ دار کے ہاں بھجوا دی اور لڑکی کی شادی کہیں اور طے کر دی، اس دوران لڑکی نے عدالت میں جا کر قاضی کے روبرو نکاح اپنی پسند کے لڑکے سے کر لیا اور پھر کچھ دن بعد عدالت میں بھی بیان دے دیا کہ وہ راضی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ان کے 4 بچے ہیں۔ لیکن وہ بھائی اہلحدیث مفتی کو ملے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ نکاح ہی نہیں ہوا ہے، میرے دوست بہت پریشان ہیں اس بارے میں آپ وضاحت کر دیں، اگر یہ غلط ہے ہوا ہے تو اس کا کفارہ کیسے ممکن ہے اور کیا نکاح دوبارہ ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہوں اور باقاعدہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور لڑکا اس لڑکی کا کفو ( یعنی دینداری، مال، نسب اور پیشہ میں لڑکی کا ہم پلہ ) بھی ہو تو شرعا یہ نکاح صحیح اور درست ہوگا اور اگر عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرے تو شرعا ایسا نکاح بھی منعقد ہو جائے گا، لیکن ولی کو بذریعہ عدالت اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں اگر لڑکا اور لڑکی بالغ تھے، اور انہوں نے عدالت کے ذریعے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا تھا تو یہ نکاح شرعا منعقد ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعجم الأوسط للطبراني: (6/1، ط: دار الحرمين)
عن جابر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء، ولا يزوجهن إلا الأولياء، ولا مهر دون عشرة دراهم»
الفتاوی الھندیة: (293/1، ط: دار الفكر)
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة: أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما"
بدائع الصنائع: (317/2، ط: دار الکتب العلمية)
كفاءة الزوج في إنكاح المرأة الحرة البالغة العاقلة نفسها من غير رضا الأولياء بمهر مثلها....فقد قال عامة العلماء: أنها شرط.....لنا ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا يزوج النساء إلا الأولياء، ولا يزوجن إلا من الأكفاء، ولا مهر أقل من عشرة دراهم» ، ولأن مصالح النكاح تختل عند عدم الكفاءة؛ لأنها لا تحصل إلا بالاستفراش، والمرأة تستنكف عن استفراش غير الكفء، وتعير بذلك، فتختل المصالح؛ ولأن الزوجين يجري بينهما مباسطات في النكاح لا يبقى النكاح بدون تحملها عادة، والتحمل من غير الكفء أمر صعب يثقل على الطباع السليمة، فلا يدوم النكاح مع عدم الكفاءة، فلزم اعتبارها.
رد المحتار: (55/3، ط: دار الفكر)
يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی