عنوان: آنحضرت ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر مغفرت کى شفاعت کى درخواست کرنا اور اپنى کسى حاجت کے لیے آنحضرت ﷺ کى خدمت میں اللہ تعالى سے دعا فرمانے کى درخواست کرنا(1021-No)

سوال: کیا روضہ رسول ﷺ کے سامنے یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ یا اللہ! رسول اللہ ﷺ کی برکت اور وسیلہ سے میرا فلاں کام بنا دے یا یہ دعا كہ یا ﷺ! آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ ہمارا فلاں کام ہو جائے۔

جواب: ۱) واضح رہے کہ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، آپ کی یہ حیات دنیوی حیات کی طرح ہے، یعنی جس طرح دنیا میں آپ ﷺ کو حیات حاصل تھی، اسی طرح کی حیات قبر اطہر میں حاصل ہے، باقاعدہ روح مبارک کا جسد اطہر کے ساتھ تعلق ہے، لیکن اس حیات میں دنیوی لوازمات کھانے پینے کی حاجات وغیرہ نہیں ہوتی ہے، البتہ دنیا کی طرح کا علم، شعور ادراک وغیرہ حاصل ہے، البتہ چونکہ آپ ﷺ عالم برزخ میں تشریف فرما ہیں، اس اعتبار سے آپ کی یہ زندگی برزخی زندگی بھی ہے اور آپ احکام شریعت کے مکلف نہیں ہیں۔ (ماخذہ: المهند على المفند، ص 34، وتسكين الصدور، ص 258)
جو شخص آنحضرت ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر آپ کی خدمت میں صلاۃ وسلام عرض کرے یا شفاعت کی درخواست کرے تو آپ ﷺ اسے خود سماعت فرماتے ہیں۔
اسی لیے جس شخص کو آپ ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری کى سعادت حاصل ہو جائے تو اسے حاضرى کے وقت یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ حضور اقدس ﷺ کى خدمتِ اقدس میں حاضرى کے شرف سے باریاب ہوا ہے، کیونکہ جب باجماع امت آنحضرتﷺ اپنے روضۂ اطہر میں حیات ہیں تو اس کا لازمى مطلب یہ ہے کہ روضہ اقدس پر حاضرى آنحضرت ﷺ کى خدمت میں حاضرى ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوى ؒ "جذب القلوب" ص 180 (بحوالہ مقام حیات:ص 565) میں فرماتے ہیں: "جو رسول اللہ ﷺ کى زیارت کے لیے آیا وہ اس وقت حضور ﷺ کى ہمسائیگى میں ہے"۔
لہذا اگر کوئى شخص روضۂ اقدس پر حاضر ہو کہ آنحضرت ﷺسے یہ درخواست کرے کہ آپ ﷺمیرے لیے اللہ تعالى سے مغفرت کى شفاعت فرمائیں، بلاشبہ یہ عمل نہ صرف جائز ہے، بلکہ روضہ اقدس پر حاضرى کے آداب میں سے ایک اہم ادب بھى ہےکہ وہاں آنحضرت ﷺ سے اللہ کے حضور شفاعت کى درخواست کى جائے، اس کا ثبوت قرآن کریم ، صحابہ کرام کے عمل سے اور جمہور علماء امت کے قول سے ہوتا ہے: ارشاد بارى تعالى ہے: ترجمہ: "اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے"۔(سورۃ النساء: آیت نمبر: 64)
تفسیر: "اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور آپﷺ اس کے لیے دعاء مغفرت کر دیں، اس کی مغفرت ضرور ہو جائے گی اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضری جیسے آپ ﷺکی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی، اسی طرح آج بھی روضۂ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے"۔
(معارف القرآن: جلد 2 ص 459، از مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ، طبع: مکتبہ معارف القرآن، کراچی)
محدث کبیر حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ"إعلاء السنن" جلد 10 ص 498 میں لکھتے ہیں: ترجمہ:"ثابت ہوا کہ اس آیت کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد بھی باقی ہے"۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوى نور اللہ مرقدہ نے اپنى کتاب "فضائل حج " میں آداب زیارت کے عنوان کے تحت روضہ اقدس پر حاضرى کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: "سلام کے بعد اللہ جل شانہ سے حضور کے وسیلے سے دعا کرے اور حضور ﷺ سے شفاعت کی درخواست کرے، بعض علماء نے "توسل" کو منع فرمایا ہے، لیکن جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں، "مغنی" جو فقہ حنابلہ میں مشہور ومعروف ہے، اس میں الفاظِ سلام میں یہ الفاظ بھى ذکر کیے ہیں: اللهم إنك قلت وقولك الحق: "ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجودوا الله توابا رحيما"، وقد أتيتك مستغفرا من ذنوبي ، مستشفعابك إلى ربي، فأسألك يا رب، أن توجب لي المغفرة كما أوجبتها لمن أتاه في حياته.
ترجمہ: اے اللہ! تیرا پاک ارشاد ہے اور تیرا ارشاد حق ہے اور وہ یہ ہے کہ "ولو أنهم اذ ظلمو" آخر آیت تک (اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے) اب میں آپ کے پاس آیا ہوں اور اپنے گناہوں سے مغفرت چاہتا ہوں اور آپ سے اپنے رب کی بارگاہ میں شفاعت چاہتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو میری مغفرت کو واجب کر دے جیسا کہ تو نے اس شخص کی مغفرت کو واجب کیا جو حضور ﷺکی خدمت میں ان کی زندگی میں حاضر ہوا ہو۔
علامہ قسطلانی شافعى ؒ نے "مواہب" میں لکھا ہے کہ زائرین کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دعائیں مانگیں اور حضور کا وسیلہ پکڑیں اور حضور ﷺ سے شفاعت چاہیں کہ حضور ﷺکی ذاتِ اقدس ہى ایسی ہے کہ جب ان کے ذریعے سے شفاء چاہى جائے تو حق تعالى شانہ شفاعت قبول فرمائیں۔
علامہ زرقانى مالکى ؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ علامہ خلیل مالکىؒکى "مناسک" میں بھی یہی مضمون لکھا ہے۔
ابن ہمامؒ نے "فتح القدیر" میں لکھا ہے اور اس سے حضرت قدس سرہ نے "زبدۃ" میں نقل کیا ہے کہ سلام کے بعد پھر حضور ﷺ کے وسیلے سے دعا کرے اور شفاعت چاہے اور یہ الفاظ کہے: "يا رسول الله! أسألك الشفاعة، وأتوسل بك إلى الله في أن أموت مسلما على ملتك وسنتك"، (اے اللہ کے رسول!میں آپ سے شفاعت چاہتا ہوں اور آپ کے وسیلے سے اللہ سے یہ مانگتا ہوں کہ میری موت آپ کے دین اور آپ کی سنت پر ہو)۔
(ماخوذ باضافہ یسرۃ از "فضائل حج"، مؤلفہ: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوى نور اللہ مرقدہ ص 132، 133، طبع: مکتبہ بشرى،کراچى)
"فتح القدیر" جلد 3 ص 181 میں امام ابن الہمام ؒ نے روضۂ اقدس پر حاضرى کے وقت وسیلے اور شفاعت کى دعا کے الفاظ اس طرح نقل فرمائے ہیں: ترجمہ: "اور روضۂ اقدس پر حاضر ہونے والے کو چاہیے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالى سے اپنى حاجت کى دعا مانگے، سب سے اہم دعا یہ ہےکہ اللہ تعالى سے حسن خاتمہ اور اللہ تعالى کى رضا اور مغفرت کى دعا مانگى جائے، پھر وہ نبى اکرم ﷺ سے شفاعت کا سوال کرے اور یوں کہے: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے شفاعت کا طلبگار ہوں، اے اللہ کے رسول! میں آپ سے شفاعت کا طلبگار ہوں اور میں آپ کے وسیلے سے اللہ تعالى سے دعا مانگتا ہوں کہ مجھے اسلام کى حالت میں آپ کے دین اور آپ کى سنت پر موت آئے"۔
۲) آپ ﷺسے شفاعت کى درخواست کے ساتھ کسى دوسرى حاجت کے متعلق اس طور پر دعا کى درخواست کرسکتے ہیں کہ آپ ﷺ میرے لیے اللہ تعالی سے فلاں حاجت پوری ہونے کی دعا کردیں یا اس کی سفارش فرمادیں۔ براہ راست آپ ﷺ سے اپنی حاجت
اور مراد مانگنا صحیح نہیں ہے۔
امام ابن ابى شیبہؒ نے اپنى حدیث کی مشہور کتاب "المصنف" جلد 17 ص 64 رقم الحدیث (32665) طبع: دار القبلۃ، میں درج ذیل واقعہ نقل فرمایا ہے: ترجمہ: حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جب قحط آیا تو ایک صحابى رسول (حضرت بلال بن الحارثؓ ) آنحضرت ﷺکى قبر مبارک پر حاضر ہوئے اور آپﷺ کى خدمت میں بارش ہونے کے لیے دعا کى یوں درخواست کى: "یا رسول الله! استسق لأمتك، فإنهم هلكوا" (یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالى سے اپنى امت کے لیے بارش کى دعا فرمائیں، بلاشبہ لوگ قحط کى وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں)، پھر حضور اکرم ﷺاس صحابى کے خواب میں تشریف لائے اور اس سے فرمایا: عمر کو میرا سلام کہنا، ان سےکہنا کہ لوگ بارش سے سیراب ہوں گے"۔(مصنف ابن ابی شیبۃ: حدیث نمبر: 32665)
حافظ ابن حجر عسقلانىؒ نے اپنى کتاب "فتح البارى شرح صحیح البخاری" جلد 2 ص 495، میں اس حدیث کو نقل فرماتے ہوئے اس کى سند کو "صحیح" قرار دیا ہے، نیز حافظ ابن کثیرؒ نے اپنى کتاب "البدایۃ والنہایۃ" جلد 10 ص 73 میں اس حدیث کو نقل فرما کر اس حدیث کى سند کو "صحیح" قرار دیا ہے۔
حضرت ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحبؒ نے اپنى شہرہ آفاق تصنیف "مقامِ حیات" ص 575 میں مذکورہ بالا واقعہ نقل فرمانے کے بعد تحریر فرمایا: "معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روضۂ اقدس پر صرف صلاۃ وسلام ہى نہیں کہتے تھے، کوئى اور عرضداشت (بارش طلبى ہو یا شفاعت طلبى) پیش کرنا ممنوع نہیں جانتے تھے"۔
قطب الإرشاد فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہى ؒ"فتاوى رشیدیہ" جلد 1 ص 100 (بحوالہ مقامِ حیات) میں تحریر فرماتے ہیں:"قبر کے پاس جاکر کہے کہ اے فلاں تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالى میرا کام کر دے، اس میں اختلاف علماء کا ہے، مجوز سماع موتى اس کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں، سو اس کا فیصلہ اب کرنا محال ہے، مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسى کو اختلاف نہیں، اسى وجہ سے ان کو مستثنى کیا اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارتِ قبر کے شفاعتِ مغفرت کا لکھا ہے، پس یہ جواز کے لیے کافى ہے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 64)
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًاo

إعلاء السنن: (کتاب الحج، أبواب الزيارة النبوية، باب زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم قبل الحج أو بعده، 496/10، رقم الحديث: 3051، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي)
عن موسى بن هلال العبدي عن عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « من زار قبري وجبت له شفاعتي » أخرجه الدارقطني.

إعلاء السنن: (کتاب الحج، أبواب الزيارة النبوية، باب زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم قبل الحج أو بعده، 498/10، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي)
"وفي الحديث أكبر دلالة على فضيلة زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم الكريم عليه وعلى آله وأصحابه أفضل الصلاة وأكمل تسليم، وأي فضيلة أعلى وأسنى من وجوب شفاعته لمن زاره.قال العلامة الشوكاني في « النيل » : وقد اختلفت فيها أقوال أهل العلم، فذهب الجمهور إلى أنها مندوبة، وذهب بعض المالكية وبعض الظاهرية إلى إنها واجبة، وقالت الحنفية: أنها قريبة من الواجبات، وذهب ابن تيمية الحنبلي حفيد المصنف المعروف بشيخ الإسلام إلى إنها غير مشروعة، وتبعه على ذلك بعض الحنابلة، وروي ذلك عن مالك والجويني والقاضي عياض، كما سيأتي.
احتج القائلون بأنها مندوبة بقوله تعالى : ( ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول ) الآية : ووجه الاستدلال بها: أنه صلى الله عليه وعلى آله وسلم حي في قبره بعد موته كما في حديث : « الأنبياء احياء في قبورهم » وقد صححه البيهقي وألف في ذلك جزءا. قال الأستاذ أبو منصور البغدادي : قال المتكلمون المحققون من أصحابنا : إن نبينا حي بعد وفاته انتهى. ( وقد صح عن أبي أيوب الأنصاري أنه قال لمن أنكر عليه وضع وجهه على القبر : إنما جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم آت اللبن أو الحجر، كما سيأتي، فثبت أن حكم الآية باق بعد وفاته، فينبغي المن ظلم نفسه أن يزور قبره ويستغفر الله عنده فيستغفر له الرسول )".

مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 32665، 64/17، ط: دار القبلة)
حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ،قال: وكان خازن عمر على الطعام، قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له: ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له: عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر، ثم قال: يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه".
والحدیث اوردہ الحافظ فی "الفتح " 2/ 495، وقال: "وروى بن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الداري وكان خازن عمر قال أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنام فقيل له ائت عمر الحديث وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة".
واوردہ ابن کثیر فی "البداية " 10/ 73، ط: دار ھجر، معزوا للبیھقی، مثلہ، وقال:" وهذا إسناد صحيح".

المهند علی المفند: (ص: 93، ط: ادارة اسلامیات)
"عندنا وعند مشايخنا يجوز التوسل في الدعوات بالأنبياء والصالحين من الأولياء والشهداء والصديقين في حياتهم وبعد وفاتهم بأن يقول في دعائه اللهم اني أتوسل الیک بفلان أن تجيب دعوتی وتقضي حاجتي إلى غير ذلك كما صرح به شیخنا و مولانا الشاه محمد إسحاق الدهلوی ثم المهاجر المکی ثم بينه في فتاواه شخينا و مولانا رشيد أحمد الکنکوهی رحمة الله۔۔۔الخ".

الھداية: (380/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
"ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك"؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق".

فتح القدير للكمال ابن الهمام: (181/3، ط: دار الفكر)
"ويسأل الله تعالى حاجته متوسلا إلى الله بحضرة نبيه - عليه الصلاة والسلام -. وأعظم المسائل وأهمها سؤال حسن الخاتمة والرضوان والمغفرة، ثم يسأل النبي - صلى الله عليه وسلم - الشفاعة فيقول. يا رسول الله أسألك الشفاعة، يا رسول الله أسألك الشفاعة وأتوسل بك إلى الله في أن أموت مسلما على ملتك وسنتك".

فتح القدير للكمال ابن الهمام: (183/3، ط: دار الفكر)
"ويجتهد في خروج الدمع فإنه من أمارات القبول، وينبغي أن يتصدق بشيء على جيران النبي - صلى الله عليه وسلم - ثم ينصرف".

الفتاوى الهندية: (266/1، ط: دار الفكر)
"فيقول: السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان يستشفع بك إلى ربك فاشفع له ولجميع المسلمين".

الموسوعة الفقهية الکویتية: (158/14، ط: دار السلاسل)
"وأما الحنفية فقد صرح متأخروهم أيضا بجواز التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم. قال الكمال بن الهمام في فتح القدير: ثم يقول في موقفه: السلام عليك يا رسول الله.... ويسأل الله تعالى حاجته متوسلا إلى الله بحضرة نبيه عليه الصلاة والسلام".

(مستفاد از مقامِ حیات، مصنفہ: حضرت ڈاکٹر علامہ خالد محمود رحمۃ اللہ علیہ، طبع: دار المعارف، لاہور)

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 949 Mar 06, 2019
anhazar salal lahu tallah waslam ky waseely se dua mangna, order of pray with access of prophet P.B.U.H

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.