سوال:
میں نے سنا ہے کہ لفظ آزاد کنایہ ہے، اگر شوہر کے منہ سے میں تمہیں آزاد کر رہا ہوں نکل جائے لیکن نیت اس وقت طلاق کی نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
تنقیح: لفظِ آزاد کے صریح یا کنایہ ہونے اور اس سے طلاق کے واقع ہونے کا مدار سیاق و سباق پر ہے، لہٰذا یہ وضاحت فرمائیں کہ شوہر نے یہ جملہ کس سیاق و سباق میں اور کس نیت کے ساتھ کہا تھا؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح: موضوع طلاق تھا لیکن شوہر کو شروع سے معلوم ہی نہیں ہوا کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے یا ہو جائے گی اور اس نے طلاق کا لفظ استعمال نہ کرنے کے لیے دوسرا لفظ استعمال کیا۔ شوہر کے بقول اس کی طلاق کی نیت نہ تھی، بات میں وزن رکھنے کے لیے آزاد کا لفظ استعمال ہوا۔
جواب: جب شوہر نے بیوی سے کہا کہ "میں تمہیں آزاد کر رہا ہوں" تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، کیونکہ بیوی کو آزاد کرنے کے الفاظ عرف میں طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ان سے نیت کے بغیر بھی طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے، خاص طور پر جب موضوع بھی طلاق کا ہو۔
البتہ اگر اس کے علاوہ کوئی اور طلاق نہیں دی تو اس صورت میں شوہر کو عدت کے اندر رجوع کا اختیار حاصل ہوگا، اور رجوع کرنے کے بعد اس کے پاس مزید دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (299/3، ط: دار الفكر)
بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق.
کذا في تبویب فتاوى دار العلوم كراتشي: رقم الفتوی: 44/1977
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی