سوال:
میری ایک چھوٹی سی دکان ہے، جس سے میں پانچ سو روپے روزانہ کی بنیاد پر الگ کر کے رکھ لیتا ہوں، ایک ماہ میں پندرہ ہزار روپے بنتے ہیں، کیا میں ان پیسوں کو اپنی بہنوں پر خرچ کر سکتا ہوں اور اس پیسوں کو صدقہ کہیں گے یا اللہ کی راہ میں خرچ کہیں گے؟
جواب: واضح رہے کہ ثواب کی نیت سے اللہ کی راہ میں کسی کو مال دینے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کرنے کو "صدقہ" کہا جاتا ہے۔
لہٰذا آپ رشتہ داری نبھانے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اپنی بہنوں پر یہ پیسے خرچ کرسکتے ہیں، آپ کا یہ عمل ایک عمدہ عمل ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس پر دوگنا اجر و ثواب عطا فرمائیں گے، کیونکہ حاجت مند رشتہ داروں پر خرچ کرنا دوسروں پر خرچ کرنے سے اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 1042)
عن أبي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «لأن يغدو أحدكم، فيحطب على ظهره، فيتصدق به ويستغني به من الناس، خير له من أن يسأل رجلا، أعطاه أو منعه ذلك، فإن اليد العليا أفضل من اليد السفلى، وابدأ بمن تعول».
شرح النووي على مسلم: (127/7، ط: دار إحياء التراث العربي)
ومعنى أبدأ بمن تعول أن العيال والقرابة أحق من الأجانب.
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد: (248/15، ط: مؤسسة القرطبة)
قال أبو عمر: رواية مالك في قوله اليد العليا المنفقة أولى وأشبه بالأصول من قول من قال المتعففة بدليل حديث من طارق المحاربي قال قدمنا المدينة فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر يخطب الناس ويقول "يد المعطي العليا وابدأ بمن تعول أمك وأباك وأختك وأخاك ثم أدناك أدناك ".
المجلة: (161/1)
مادة 835: الصدقة هي المال الذي وهب لأجل الثواب.
البحر الرائق: (270/2، ط: دار الكتاب الاسلامي)
الصدقة العطية التي يراد بها المثوبة عنده - تعالى - وسميت بها؛ لأنها تظهر صدق رغبة الرجل في تلك المثوبة كالصداق يظهر به صدق رغبة الزوج في المرأة.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی