سوال:
اگر بیوی مرگی کی مریضہ ہو اور اس کی اکثر صحت خراب رہنے کی وجہ سے حاملہ ہونا مشکل اور پھر حمل اور زچگی کے مراحل سے گزرنا ڈاکٹروں کی راۓ میں اس کے لییے محال یا مہلک ہونے کا اندیشہ ہو تو کیا اس صورت میں اس کا شوہر اس کو طلاق دینے میں گنہگار ہوگا؟ جبکہ وہ اپنے شوہرکے حقوق پورے کرنے سے بھی عاجز ہو اور مرد کے لیے اس بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا محال ہو۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر علاج کے باوجود صحت کی امید نہ ہو، جس کی وجہ سے باہمی حقوق پورے نہ ہوسکتے ہوں، تب بھی ایسی صورت میں شوہر کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس مشکل اور آزمائش کے وقت میں صبر کرتے ہوئے بیوی کا ساتھ دے، اور جس حد تک ممکن ہو نباہ اور علاج کی کوشش کرے، اور طلاق دینے میں جلد بازی نہ کرے، نیز پہلی بیوی کے موجود ہوتے ہوئے دوسری بیوی کے حقوق ادا کر سکتا ہو تو دوسری شادی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
تاہم اگر علاج وغیرہ کے بعد بھی صحت ملنے کی امید نہ ہو تو طلاق دینے کی بھی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکريم: (البقرة، الآية: 229)
ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمۡ أَن تَأۡخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ شَيًۡٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيمَا ٱفۡتَدَتۡ بِهِۦۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعۡتَدُوهَاۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ o
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 2177، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا معرف عن محارب، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "ما أحل الله شيئا أبغض اليه من الطلاق".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی