سوال:
میرا کام گاڑیوں کی خریدو فروخت کا ہے اور میں یہ کام کمیشن پر کرتا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کمیشن لینے کی کوئی حد مقرر ہے؟ اگر میں بغیر بتائے بیس ہزار لوں تو کیا ان کو بتانا ضروری ہے، کیونکہ خریدنے والا یا بیچنے والا کم کمیشن دیتا ہے، نیز کیا خریدنے اور فروخت کرنے والے دونوں سے کمیشن لے سکتا ہوں؟
جواب: 1) جائز کام کے عوض کمیشن لینا شرعا درست ہے، اور شرعی طور پر کمیشن کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی، بلکہ باہمی رضامندی سے جو طے ہوجائے، وہ لینا درست ہے، البتہ فریقین کے ہاں کمیشن کا معلوم اور متعین ہونا ضروری ہے، لہذا بغیر بتائے کمیشن لینا شرعا درست نہیں ہے۔
2) اگر آپ کا کام صرف دونوں پارٹیوں کو آپس میں ملانا ہے، باقی حتمی سودا وہ خود کرتے ہیں، اور آپ کسی ایک فریق کا وکیل (agent) بن کر سودا نہیں کرتے تو ایسی صورت میں دونوں پارٹیوں سے طے شدہ کمیشن لیا جاسکتا ہے، لیکن اگر آپ کو ایک پارٹی نے اپنا وکیل بنالیا ہو تو ایسی صورت میں آپ صرف اسی پارٹی سے کمیشن وصول کرسکتے ہیں، جس نے آپ کو گاڑی خریدنے یا فروخت کرنے کا وکیل (Agent) بنایا ہو، اس صورت میں دوسری پارٹی سے کمیشن کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (203/4، ط: دار الکتب العلمیة)
الاجرۃ فی الاجارات کالثمن فی البیاعات.
الفقه الاسلامی و ادلته: (2997/4، ط: دار الفکر)
تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلّى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة. فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير.
مجلة الاحکام العدلیة: (88/1، ط: نور محمد)
(المادة 464) بدل الإجارة يكون معلوما بتعيين مقداره إن كان نقدا كثمن المبيع.
الدر المختار مع رد المحتار: (560/4، ط: سعيد)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی