سوال:
حبیب الرحمن ولد عبد الرحمن نے محمد بشیر ولد جلال الدین کے ساتھ مشترکہ کاروبار شروع کیا تھا جو کافی سالوں سے چل رہا ہے، لیکن اب چونکہ حبیب الرحمن ولد عبد الرحمن کا انتقال ہوگیا ہے۔
اس سلسلہ میں مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اب حبیب الرحمن کی بیوہ اور دو نابالغ بیٹیوں کو کاروبار سے منافع کس صورت میں ملے گا؟ بیوہ اپنے مرحوم شوہر کی لگائی ہوئی رقم کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن محمد بشیر ولد جلال الدین کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ رقم واپس نہیں کرسکتا، کیونکہ ایک ساتھ رقم دینے کی صورت میں اس کے کاروبار میں حرج آتا ہے تو اب وہ رقم کس صورت میں محمد بشیر ولد جلال الدین سے واپس مل سکتی ہے؟ نیز رقم ملنے تک منافع ملے گا یا پھر رقم ہر ماہ قسطوں میں دے گا؟
برائے مہربانی مزید دو باتوں کی وضاحت شریعت کی رو سے فرمائیں:
۱) اگر رقم کا مطالبہ کرنا ہو تو اس کی کیا صورت بن سکتی ہے؟
۲) اگر کاروبار جاری رکھیں تو اس کی کیا صورت ہوگی؟
یاد رہے کہ حبیب الرحمن ولد عبد الرحمن نے محمد بشیر ولد جلال الدین کے صاحب زادے محمد صغیر ولد محمد بشیر کو ماہانہ وظیفہ پر رکھا تھا اور بشیر ولد جلال الدین اور حبیب الرحمن ولد عبد الرحمن اپنا منافع لیتے تھے۔ نیز ایک ملازم جو سامان وغیرہ کو گودام میں رکھتا تھا، اس کو بھی ماہانہ وظیفہ پر رکھا تھا، یہ کام حبیب الرحمن ولد عبد الرحمن اور محمد بشیر ولد جلال الدین کی باہمی مشاورت سے طے پایہ تھا، حبیب الرحمن کے انتقال کے بعد محمد بشیر ولد جلال الدین نے اپنے دوسرے صاحب زادے محمد مزمل ولد محمد بشیر کو رکھا، اب یہ کس بنیاد پر کس کے مشورے سے رکھا اس کا کوئی گواہ نہیں ہے۔
جواب: سوال میں ذکر کرده صورت میں شریک (حبیب الرحمن) کے وفات پانے سے ان کی اس کاروبار میں شراکت داری ختم ہوگئی ہے، لہذا اب مرحوم کی وفات تک کی کل رقم (اصل رقم بمع نفع) دوسرے شریک (محمد بشیر) کے پاس بطورِ امانت ہے، اگر مرحوم کے بالغ ورثاء اپنے حصے کے بقدر رقم کو دوبارہ نئے عقد کے ساتھ اس کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں تو لگاسکتے ہیں، البتہ نابالغ بچیوں کے حصے کی رقم کاروبار میں لگانے کے لیے ان کے ولی (باپ کے وصی یا وصی نہ ہونے کی صورت میں بچیوں کے دادا) کی اجازت ضروری ہوگی۔
لیکن اگر ورثاء اس کاروبار میں شریک نہ ہونا چاہتے ہوں یا دوسرے شریک کی رضامندی نہ ہو، اس صورت میں دوسرے شریک پر لازم ہے کہ مرحوم کی کل رقم ورثاء کو واپس کردے، بلا عذر اس کی واپسی میں تاخیر کرنا یا ٹال مٹول کرنا جائز نہیں ہے، اس رقم کی واپسی کی کوئی بھی صورت (خواہ ہفتہ وار قسطوں کی صورت میں ہو یا ماہانہ وار) آپس کی رضامندی سے طے کی جاسکتی ہے، البتہ اس دوران مرحوم کے سرمایے سے جو نفع ہوگا، وہ مرحوم کے ورثاء کو ملے گا۔
ملنے والی رقم کو مرحوم کی بیوہ، دو نابالغ بچیوں اور اگر کوئی اور شرعی وارث ہو تو ان کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
نیز اب چونکہ مذکورہ کاروبار صرف محمد بشیر کی ملکیت ہے، لہذا وہ اپنے سابقہ شریک کے ورثاء کی اجازت کے بغیر بھی اپنے بچوں کو اپنے ساتھ مزدوری پر رکھ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (11/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ويده في المال يد أمانة" لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة.
الدر المختار مع رد المحتار: (327/4، ط: دار الفكر)
(وتبطل الشركة) أي شركة العقد (بموت أحدهما) علم الآخر أو لا لأنه عزل حكمي (ولو حكما) بأن قضي بلحاقه مرتدا.
(قوله: بموت أحدهما): لأنها تتضمن الوكالة أي شرط لها ابتداء وبقاء؛ لأنه لا يتحقق ابتداؤها إلا بولاية التصرف لكل منهما في مال الآخر، ولا تبقى الولاية إلا ببقاء الوكالة، وبه اندفع ما قيل الوكالة تثبت تبعا، ولا يلزم من بطلان التبع بطلان الأصل فتح، فلو كانوا ثلاثة فمات أحدهم حتى انفسخت في حقه لا تنفسخ في حق الباقيين بحر عن الظهيرية.
الفتاوى التاتارخانية: (464/7، ط: مكتبة رشيدية)
وفي الذخيرة : وأما شركة العنان فقد تكون في جميع التجارات وقد تكون في بعضها، وفي الخانية: وتجوز هذه الشركة من الرجال والنساء والبالغ والصبي المأذون والحر والعبد المأذون في التجارة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی