سوال:
ایک شخص ان لائن کاروبار کرنا چاہتا ہے، کاروبار کی نوعیت یہ ہے کہ اس کے پاس ایک سافٹ ویئر کا اکاؤنٹ ہے، جو اسے HEC کی طرف سے یونیورسٹی میں استاد ہونے کی وجہ سے ملا ہوا ہے، اس سافٹ وئیر کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ جو مضمون آپ نے لکھا ہے (چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو کتاب، اسائنمٹ وغیرہ) اس میں اور انٹرنیٹ پر موجود جو مواد ہے، اس سے کتنی مماثلت رکھتا ہے، یہ سافٹ وئیر صرف مماثلت کا بتاتا ہے، یہ مماثلت دانستہ بھی ہوسکتی ہے اور غیر دانستہ بھی، اس سافٹ وئیر کے استعمال سے اساتذہ اسٹوڈنٹس کے اسائنمٹ چیک کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کہیں نقل تو نہیں کی۔
مزید یہ اس لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس، اساتذہ یا کوئی اور شخص کسی انٹرنیشنل ادارے کو اپنا کام تحریری شکل میں جمع کرانے سے پہلے اس سافٹ وئیر پر چیک کرتے ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو کام انٹرنیشنل ادارے کو جمع ہو، اس میں انٹرنیٹ پر موجود مواد سے مماثلت ایک خاص حد سے کم ہو، کیونکہ آج کل انٹرنیٹ پر ہر قسم کا مواد موجود ہے، اگر کوئی شخص اپنا بھی کوئی مضمون لکھے تو اس میں انٹرنیٹ والے مواد سے کہی نہ کہی مماثلت نکل ہی آتی ہے، تاکہ وہ اپنی تحریر درست کرسکے۔
یہ شخص ایسے لوگوں کو معاوضے کے بدلے اس سافٹ وئیر کے ذریعے یہ بتائے گا کہ آپ کے کام میں انٹرنیٹ پر موجود مواد سے کتنی مماثلت ہے، اس سافٹ وئیر کا اکاؤنٹ بناتے وقت نہ تو یونیورسٹی کی طرف سے اور نہ ہی HEC کی طرف سے کوئی پابندی یا اس کے استعمال سے متعلق کوئی معاہدہ کیا گیا ہے۔
جن لوگوں سے معاوضہ لیا جاتا ہے دراصل ان کے پاس اس سافٹ وئیر کا اکاؤنٹ نہیں ہوتا اور وہ جلد از جلد اپنے کام کی مماثلت کے بارے میں جانا چاہتے ہیں، جس کے لیے اپنے دوسرے کام موخر کر کے ان کے کام کو ترجیح دی جاتی ہے اور کبھی رات کو بھی ان کے کام کے لیے جاگنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس کام کے بدلے معاوضہ لینا درست ہے؟
جواب: سوفٹ ویئر کے ذریعے تحریری مواد (اسائنمنٹس وغیرہ) کی جانچ پڑتال کرکے (Plagirarism Report) دینے کے عوض طے شدہ اجرت لینا شرعا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی ہے، البتہ پوچھی گئی صورت میں اس شخص کو سافٹ ویئر کا اکاؤنٹ یونیورسٹی میں استاد ہونے کی وجہ سے ملا ہے، اس لئے اگر متعلقہ انتظامیہ کی طرف سے اس اکاؤنٹ کو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی ممانعت ہو تو پھر اس پابندی کی رعایت رکھنا شرعا بھی ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (413/4، ط: دار الفکر)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي
الفتاوی الھندیة: (409/4، ط: دار الفکر)
اما تفسیرها (ای الاجارۃ) شرعا فهی عقد علی المنافع بعوض کذا فی الھدایة
و اللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی