سوال:
ایک لڑکا اور ایک لڑکی زنا کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، دونوں اپنا جرم مان رہے ہیں، اور اس کیس کے تمام گواہ بھی موجود ہیں، اب لڑکی کا شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، کیا ایسی صورت میں لڑکی کو اپنے جہیز، تحائف اور مہر وغیرہ میں سے کچھ حصہ ملے گا یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ زنا گناہ کبیرہ ہے، لہذا زنا کرنے والے مرد و عورت پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ اس فعل سے بچنے کا پورا عزم کریں۔
اس کے بعد اگر شوہر چاہے تو اس عورت کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے، کیونکہ زنا کی وجہ سے عورت کو طلاق دینا شرعا لازم نہیں ہے، لیکن اگر شوہر سمجھتا ہے کہ ساتھ رہتے ہوئے حدود اللہ (میاں بیوی کے ایک دوسرے پر شرعی حقوق) قائم نہیں رہیں گے اور وہ اس کے ساتھ رہنے پر راضی نہ ہو تو اسے طلاق بھی دے سکتا ہے۔ طلاق دینے کی صورت میں عورت کو پورا مہر ملے گا، لیکن اگر شوہر بیوی کی رضامندی سے مہر کے بدلے خلع دے دے تو خلع دینے سے عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی، جس سے وہ فورا شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی اور اسے مہر کا استحقاق بھی نہیں ہوگا۔
نیز جہیز کا سامان اور وہ تحائف جو عورت کو اس کے رشتہ داروں کی طرف سے دیے گئے ہیں، وہ چونکہ عورت کی ملکیت ہیں، لہذا دونوں صورتوں (طلاق یا خلع) میں عورت اپنے جہیز کا سامان اور تحائف اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے۔
البتہ شوہر اور سسرال کی طرف سے ملنے والے تحائف اگر عورت کو بطور ملکیت دیے گئے ہوں تو عورت ان تحائف کی مالک ہوگی، لیکن اگر بطورِ عاریت (محض استعمال) دیے گئے ہوں تو عورت ان تحائف کی مالک نہیں ہوگی، لہذا عورت کو ان کے مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير القرطبي: (138/3، ط: دار الكتب المصرية)
الرابعة- قوله تعالى: (فإن خفتم ألا يقيما) أي على أن لا يقيما. (حدود الله) أي فيما يجب عليهما من حسن الصحبة وجمل العشرة... وترك إقامة حدود الله : هو استخفاف المرأة بحق زوجها، وسوء طاعتها إياه، قاله ابن عباس ومالك بن أنس وجمهور الفقهاء.
الدر المختار مع رد المحتار: (427/6، ط: دار الفكر)
لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة.
(قوله لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اه مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد يد لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها» اه ط.
الفتاوى الهندية: (488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.
الدر المختار: (155/3، ط: دار الفكر)
وفيه عن المبتغى (جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى).
و فيه أيضاً: (442/3، ط: دار الفكر)
(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق (بما يصلح للمهر) ... وصفته ما ذكره بقوله (وهو يمين في جانبه) لأنه تعليق الطلاق بقبول المال (فلا يصح رجوعه) عنه (قبل قبولها).
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی