سوال:
میں ایک دوست کی کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں، کام مشینری امپورٹ کا ہے، کمپنی کا مالک حلال و حرام میں کوئی تمیز نہیں کرتا ہے، کروڑوں روپے سودی بینک میں ڈپوزٹ کیے ہوئے ہیں جس پہ ہر ہفتہ سود کی رقم ملتی ہے اور وہ اس مال میں جمع ہو جاتی ہے۔ یہ سودی اکاؤنٹ مئی 2022 کے مہینہ میں کھولا تھا، اس اکاؤنٹ میں کچھ بھی activity کا مجھے نہیں کہا ہے، ہاں! البتہ ایک مرتبہ جب بوس کو ویزہ کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ کی ضرورت تھی تو مجھ سے اسٹیٹمنٹ منگوانے کا کہا جو میں نے بینک سے منگوا کر دے دی، اس اسٹیٹمنٹ کو دیکھ کر ہی مجھے پتا چلا تھا کہ یہ سودی اکاؤنٹ کھولا ہے جس میں ہر ہفتہ سود کی رقم (interest money) آجاتی ہے۔
مجھے اس کمپنی میں کام کرنے سے متعلق درج ذیل چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
۱) میں نے جو بوس کے کہنے پر اسٹیٹمنٹ منگوائی تو کیا میں اس گناہ میں شریک ہوا ہوں؟ اگر ہوا ہوں تو اس کی تلافی کیسے ہوگی؟
۲) یہاں پاکستان میں ہم جو مشینری امپورٹ کرتے ہیں، جس بھی کمپنی میں سیل کرتے ہیں، وہاں تقریبا ہر مشین بیچتے وقت جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم اٹھا لینا بوس کو معمولی بات لگتی ہے، اور مزید یہ کہ جس جس کمپنی میں بھی ہمیں اپنی پروڈکٹس بیچنی ہو تو پورے ملک کی تقریبا ہر ورکشاپ یا ڈیلر شپ کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے مینیجر یا جنرل مینیجر یا سپروائیزر یا جو بھی ذمہ دار ہے اس کو رشوت دے کر مہنگے دام میں اپنی مشینری بیچتا ہے۔
اسی طرح اکثر اوقات جب مشینری پیچنے کا معاملہ طے ہو جاتا ہے اور کسٹمر کچھ رقم ایڈوانس میں دیدیتے ہیں، لیکن جب ہر ماہ ایف بی آر کو سیلز ٹیکس کا ریٹرن آن لائن جمع کرنا ہوتا ہے تو مجھے ان بلوں میں سے کچھ کے لیے کہہ دیتا ہے کہ ان بلوں کو سیلز ٹیکس کے ریٹرن میں نہ دکھائیں تاکہ سیلز ٹیکس کی رقم جو کہ کسٹمر سے لی ہے وہ گورنمنٹ کو نہ جمع کرانی پڑے۔ جھوٹ بہت زیادہ ہوتا ہے تو کیا مجھے جھوٹ لکھنے کا گناہ ہوگا؟
۳) مجھے کہیں اور نوکری نہیں مل رہی ہے، میری تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: 1) واضح رہے کہ روایتی سودی بینک (Conventional Bank) میں سیونگ اکاؤنٹ کھولنا شرعا جائز نہیں ہے، البتہ جو غیر سودی بینک مستند علمائے کرام کے زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہو، اس میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا شرعا درست ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا سیونگ اکاؤنٹ کسی سودی بینک میں ہو، تب بھی محض بینک اسٹیٹمنٹ منگوانے سے آپ سود کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔
2) اپنی چیزیں بیچنے کیلئے جھوٹ بولنا، جھوٹی قسمیں کھانا اور رشوت دینا ناجائز اور حرام ہے، نیز اصولی طور پر جتنا ٹیکس بنتا ہو تو اسے ادا کرنا شرعا بھی ضروری ہے، البتہ اگر ٹیکس ناقابل برداشت اور ظالمانہ حد تک ہوں تو صریح جھوٹ سے بچتے ہوئے کچھ سیل (Sale) کو ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہ کرنے کی گنجائش ہے۔
3) اگر آپ کی ذمہ داریوں میں جائز اور ناجائز مثلا: جھوٹ، رشوت وغیرہ دونوں طرح کے کام شامل ہیں تو حلال کاموں کے عوض ملنے والی تنخواہ آپ کے لیے حلال ہے، ناجائز کاموں کے عوض ملنے والی تنخواہ حلال نہیں ہوگی، نیز اس صورت میں آپ ساتھ ساتھ کسی متبادل مکمل جائز کام کی تلاش جاری رکھیں، تاہم جب تک کوئی جائز کام نہ ملے تو یہی کام جاری رکھ سکتے ہیں، اور حتی الامکان جھوٹ اور رشوت وغیرہ جیسے ناجائز معاملات اور غیر شرعی معاملات سے اپنی حد تک بچنے کی کوشش بھی کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (187/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
و منع بعض الفقھاء البیع ان قصد به احد المتعاقدین المعصیة و علم الآخر ذلك.
الفتاوی الھندیة: (339/5، ط: دار الفکر)
رجل قال لآخر کم اكلت من تمری فقال خمسة و ھو قد اکل العشرة لا یکون کاذبا و کذا لو قال بکم اشتریت هذا الثوب فقال بخمسة و هو قد اشتری بعشرة لا یکون کاذبا کذا فی الخلاصة.
فقه البیوع: (1056/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
أما قبول الوظائف في مثل هذه الفنادق والمطاعم، فإن كانت الوظيفة متمحضة لخدمة مباحة، فهي جائزة، وتجرى على راتبها حكم المال الحلال وإن كانت متمحضة للحرام، مثل بيع الخمر، فهي حرام، وراتبها حرام. وأما الوظائف المركبة من الخدمات المباحة والخدمات المحظورة، فلا يجوز قبولها لاشتمالها على عمل محرم، ولكن إن قبل أحد مثل هذه الوظيفة، فما حكم الراتب الذى اخذہ علیھا؟ لم اجد فيها نقلاً في كلام الفقهاء ۔۔۔۔ والحاصل ان الإجارة فى الخدمة المباحة إنما تصح إذا كانت أجرتها معلومة بانفرادها، ولا تصح فيما إذا لم تكن أجرتها معلومة. فإن كان كذلك في خدمات الفنادق والمطاعم والبنوك وشركات التأمين صارت أجرة الموظف فيها مركبة من الحلال والحرام فدخلت فى الصورة الثالثة من القسم الثالث، وحلّ التعامل معہ بقدر الحلال. أما إذا لم تعرف أجرة الخدمة المباحة على حدتها، فالإجارة فاسدة ولكن الأجير يستحق أجر المثل في الإجارات الفاسدة، كما صرح به ابن قدامة رحمه الله تعالى بذلك في إجارات فاسدة أخرى. وعلى هذا، فإن ما يُقابل أجر المثل للخدمة المباحة في راتبه ينبغى أن يكون حلالاً، فصار راتبه مخلوطاً من الحلال والحرام في هذه الصورة أيضاً. فينبغى أن يجوز معه التعامل بقدر الحلال.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی