سوال:
کیا یہ کہنا درست ہے کہ فلاں شخص معجزانہ طور پر بچ گیا، جبکہ معجزہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے؟
جواب: واضح رہے کہ "معجزة" عربی زبان کا لفظ ہے، جو کہ "عِجْزٌ" سے مأخوذ ہے، جس کا معنی ہے: بے بس ہونا، عاجز آنا اور اصطلاح میں "معجزہ" کہا جاتا ہے: ایسے خلافِ عادت کام کو جو مروجہ فطری قوانین اور عالم اسباب کے بر خلاف ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے اس نبی سے ظاہر کروایا جائے اور اسے عام لوگ سر انجام دینے سے عاجز ہوں۔
معجزے کی مذکورہ تعریف سے معلوم ہوا کہ قوانینِ فطرت اور ظاہری اسباب کے بر عکس کام کا کسی نبی کے ذریعے سے ظہور اس کی نبوت کے ثبوت کے لیے ہوتا ہے، جبکہ عام حالات میں کسی شخص کے ساتھ جب ظاہری اسباب کے برعکس کوئی معاملہ پیش آتا ہے، مثلا: کوئی شخص گاڑی کے خوفناک حادثے میں باوجود پورے اسباب ہلاکت کے زندہ سلامت محفوظ رہے تو چونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو عالم اسباب کے برعکس ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسبابِ ہلاکت کے باوجود اسے زندہ سلامت رکھا ہے اور اس میں انسان کا کوئی کمال نہیں ہے، لہذا محاورے میں مجازی طور پریہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس حادثے میں "معجزاتی" طور پر بچ گیا ہے، ظاہر ہے اس جملے کے ذریعے (معاذ اللہ) اس بچ جانے والے کی نبوت کا ثبوت مقصود نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی سننے والوں کے ذہن میں اس کا اصطلاحی معنی ہوتا ہے، بلکہ اس میں محض اللہ تعالیٰ کی اس حیرت انگیز قدرت کاملہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کام عام طور پر انسانی دسترس میں نہیں ہوتا ہے اور انسان اس سے عاجز ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی ایسا جملہ کہہ دے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح العقائد النسفية: (مبحث المعجزات و أقسام الخوارق، ص: 315، ط: مكتبة البشرى)
"هي أمر يظهر بخلاف العادة على يد مدعي النبوه عند تحدى المنكرين على وجه يعجز المنكرين عن الإتيان بمثله".
القاموس الوحيد: (مادة: عجز، ص: 1049، ادارہ اسلامیات، لاهور)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی