سوال:
کیا زکوة سے ہم کسی بالغ بچی کی یونیورسٹی کی فیس ادا کرسکتے ہیں؟ جبکہ وہ صاحب نصاب نہ ہو۔ نیز اگر وہ بے پردہ مخلوط ماحول میں پڑھے اور بعد میں پڑھائے تو کیا اس کا گناہ ہم پر ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کی رقم مستحق زکوۃ کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، جب تک مستحق کی ملکیت میں رقم دے کر اس کو مالک نہ بنا دیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں براہ راست یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ رقم بالغ لڑکی کی ملکیت میں یا اس کے وکیل کے حوالہ کردی جائے، پھر اگر وہ چاہے تو اس سے اپنی یونیورسٹی کی فیس ادا کردے۔
باقی لڑکی کا اپنے اختیار سے کیے گئے کسی عمل کا گناہ زکوٰۃ دینے والے کو نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
"اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالغَارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِیِلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اﷲِ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
الدر المختار مع رد المحتار: (344/2، ط: دار الفکر)
ویشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحة کمامر۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی