سوال:
ہم تین بھائی ہیں والدین کا انتقال ہوچکا ہے، وراثت میں ایک فلیٹ اور زیورات ہیں، دو بھائی شادی شدہ ہیں، جبکہ ایک کنوارہ بھائی اس فلیٹ میں رہتا تھا، 2006 سے بجلی، پانی، گیس فلیٹ کے سارے اخراجات دونوں شادی شدہ بھائی ادا کرتے تھے، پچھلے سال 2022 میں کنوارے بھائی نے ہم دو بھائیوں کی اجازت کے بغیر وہ فلیٹ پندرہ لاکھ کا بیچ دیا ہے اور ہم دونوں بھائیوں کو 65000 روپے دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم باقی دو بھائی زیورات میں سے فلیٹ اور زیور میں اپنا جو حصہ بنتا ہے، وہ لے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ وراثت ایک شرعی حق ہے، جس میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوتے ہیں، کسی بھی وارث کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ ترکہ کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتا فلیٹ پندرہ لاکھ کا فروخت ہوا ہو اور کنوارے بھائی نے مکمل رقم ورثاء میں صحیح تقسیم نہ کی ہو تو اس پر لازم ہے کہ اپنا حصہ رکھ کر باقی زائد رقم شرعی تناسب سے ورثاء میں تقسیم کر دے، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔
لیکن اگر وہ بقیہ رقم تقسیم کرنے پر راضی نہ ہو تو باقی ورثاء زیور میں سے اپنے (فلیٹ اور زیور کے) حصے کے بقدر لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (کتاب الشرکة، 301/2، ط: دارالفکر)
ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه.
الدر المختار مع رد المحتار: (فروع، 422/6، ط: دار الفکر)
ليس لذي الحق أن يأخذ غير جنس حقه وجوزه الشافعي وهو الأوسع.
(قوله وجوزه الشافعي) قدمنا في كتاب الحجر: أن عدم الجواز كان في زمانهم، أما اليوم فالفتوى على الجواز (قوله وهو الأوسع) لتعينه طريقا لاستيفاء حقه فينتقل حقه من الصورة إلى المالية كما في الغصب والإتلاف مجتبى.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي: (4984/7، ط: دار الفكر)
ليس المرء حراً بالتصرف في ماله بعد وفاته حسبما يشاء كما هو مقرر في النظام الرأسمالي، وإنما هو مقيد بنظام الإرث الذي يعتبر في الإسلام من قواعد النظام الإلهي العام التي لا يجوز للأفراد الاتفاق على خلافها، فالإرث حق جبري.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی