سوال:
عبداللہ فوت ہوا اور اس کے ورثاء میں والدہ، بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھییں، عبداللہ کے بھائی نے جب عبداللہ کی وراثت کی زمین انتقال کروائی تو والدہ کے علاوہ دیگر ورثا کے نام زمین کا انتقال کروائی، تقسیم وراثت کے بعد والدہ دس سال تک زندہ رہیں، لیکن انہوں نے عبداللہ کی میراث میں سے اپنا حصہ نہیں مانگا اور نہ ہی والدہ کے دوسرے بھائیوں نے (جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں) اس وقت اعتراض کیا، لیکن اب والدہ کی وفات کے تیس سال بعد اس کا ایک بیٹا اپنی والدہ کا حصہ مانگ رہا ہے، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ عبد اللہ کے دیگر ورثاء میں سے آدھے ورثاء اپنا حصہ بیچ چکے ہیں، جنہوں نے وراثت کی زمین نہیں بیچی (ان میں سے ایک تقسیم وراثت کے وقت نا بالغ تھا) عبداللہ کا بھائی ان سے کہہ رہا ہے کہ میری والدہ کا تمام حصہ اب تمھارے اوپر لازم ہے، اس لیے تم یہ حصہ ادا کرو۔ کیا عبداللہ کا صرف ایک وارث سے یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ صرف ایک وارث پر عبداللہ کی والدہ کا پورا حصہ دینا لازم نہیں ہے، اس لیے والدہ کے پورے حصہ کا ایک وارث سے مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ تمام ورثاء پر لازم ہے کہ والدہ کا جو حصہ بنتا تھا، اب ان کے انتقال کے بعد وہ حصہ ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الشرکة، 301/2، ط: دار الفکر)
ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه.
بدائع الصنائع: (کتاب القسمة، فصل في صفات القسمة، 161/9، ط: دارالكتب العلمية)
وأما صفات القسمة فأنواع: منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء، ومبادلة البعض، ومبنى المبادلات على المراضاة، فإذا وقعت جائرة؛ لم يوجد التراضي، ولا إفراز نصيبه بكماله؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد.
شرح المجلة: (الفصل الثاني في کیفیة التصرف، المادۃ: 1075)
"کل من الشرکاء في شرکة الملك أجنبي في حصة سائرهم، فلیس أحدهم وکیلاً عن الآخر، ولایجوز له من ثم أن یتصرف في حصة شریکه بدون إذنه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی