عنوان: مرنے کے بعد انسان کی روح جنت میں پرندوں کی شکل میں درختوں پر لٹکی رہتی ہے۔۔۔الخ حدیث کی تحقیق (10388-No)

سوال: مفتی صاحب! اس روایت کی تحقیق درکار ہے: حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ جب ہم مرجائیں گے تو کیا ہم ایک دوسرے سے ملیں گے اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کی روح پرندوں کی شکل میں درختوں پر لٹکی رہتی ہے، جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر شخص کی روح اس کے جسم میں داخل ہو جائے گی۔ (مسنداحمد ،حدیث نمبر: 27387 )

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت سند کے اعتبار سے ’’ضعیف‘‘ہے، البتہ اس روایت کا شاہد اور متابع موجود ہونے کی وجہ سے ایک درجہ تقویت مل جاتی ہے، لہذا اس روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ جب ہم مرجائیں گے تو کیا ہم ایک دوسرے سے ملیں گے اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کی روح پرندوں کی شکل میں درختوں پر لٹکی رہتی ہے، جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر شخص کی روح اس کے جسم میں داخل ہو جائے گی۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 27387)
تخریج الحدیث:
۱۔اس روایت کو امام احمدبن حنبل (م241ھ) نے’’مسند أحمد‘‘ (45 /383، رقم الحديث:27387، ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکرکیا ہے۔
۲۔ حافظ ابن سعد (م230ھ) نے’’الطبقات‘‘ (460/8، ط: دار صادر) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔ امام ابن ابی عاصم (م287ھ) نے ’’الآحاد والمثانی‘‘ (156/6، رقم الحديث:3383، ط:دارالراية) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔ امام طبرانی (م360ھ) نے’’المعجم الکبیر‘‘ (438/24، رقم الحديث:1072) اور (136/25،رقم الحديث :330، ط: مكتبة ابن تيمية) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔حافظ ابونعیم اصفہانی (م430ھ) نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ (77/2، ط: دارالفكر) اور ’’معرفۃ الصحابۃ‘‘(3575/6، رقم الحديث: 8067، ط: دار الوطن) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ہیثمی (م807ھ) نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا: اس روایت کو امام احمد نے مسند اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اور اس کی سند میں راوی ’’ ابن لهيعة‘‘ پر کلام ہے۔
امام ترمذی (م279ھ) نے ’’ ابن لهيعة‘‘ کو حافظ کے اعتبار سے ضعیف قرار دیا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی(م852ھ) نے ’’ابن لهيعة‘‘ کو صدوق قرار دیا ہے۔
دکتور احمد شاکر (م1377ھ) ترمذی شریف کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ہم نے ’’ابن لهيعة‘‘ کی احادیث کا تتبع کیا اور ان کے بارے میں علمائے کرام کے کلام کو سمجھا اور یہی راجح معلوم ہوا کہ ’’ابن لهيعة‘‘ صحیح الحدیث ہیں۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ مذکورہ بالا روایت میں راوی ’’ابن لهيعة‘‘پر اگرچہ بعض علمائے کرام نے کلام کیا ہے، لیکن ان کی روایت قابل بیان ہے اور خاص کر جب اس کا شاہد بھی موجود ہے۔
مذکورہ روایت کا شاہد :
مذکورہ روایت کے شاہد کو امام نسائی (م303ھ) نے ’’سنن النسائی‘‘(4 / 108،رقم الحديث: 2072، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)میں ذکر کیا ہے، جس کا ترجمہ ذیل میں ذکرکیا جاتا ہے۔
ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کی روح (وفات کے بعد) جنت کے درختوں میں اڑتی رہتی ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس کے جسم میں داخل کرے گا۔“ (سنن النسائی،حدیث نمبر: 2072)
فائدہ:
واضح رہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روح کا پرندوں کی شکل میں درختوں پر لٹکنا یہ آخرت سے متعلق ہے اور ان روایات سے تناسخ (آواگون ) کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا ہے، کیونکہ جو لوگ’’ تناسخ ‘‘کے قائل ہیں، ان کے نزدیک’’ تناسخ‘‘ اس کو کہتے ہیں کہ ’’ اس عالم میں روح کا کسی قالب و بدن میں لوٹنا ‘‘ گویا ان کے نزدیک کسی قالب وبدن میں روح کے لوٹنے کا نظریہ آخرت سے متعلق نہیں ہے اور یہ یوں بھی ممکن نہیں ہے کہ ان کے نزدیک آخرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، بلکہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسندأحمد: (383/45، رقم الحديث: 27387، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا حسن، قال: حدثنا ابن لهيعة، قال: حدثنا أبو الأسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، أنه سمع درة بنت معاذ تحدث، عن أم هانئ، أنها سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أنتزاور إذا متنا ويرى بعضنا بعضا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تكون النسم طيرا تعلق بالشجر، حتى إذا كان يوم القيامة دخلت كل نفس في جسدها».
أخرجه ابن سعد في ’’الطبقات‘‘(8/460)و ابن أبي عاصم في’’الآحاد والمثانی‘‘(6/156)( 3383) والطبراني في ’’معجمه الكبير‘‘و(25/136)(330) وأبو نعيم الأصفهاني في ’’الحلية‘‘(2/77)و في ’’معرفة الصحابة‘‘(6/3575)(8067) من طريق حسن بن موسى، بهذا الإسناد. إلا أنهم نسبوا أم هانىء الأنصارية!وأخرجه الطبراني في ’’معجمه الكبير‘‘(24/438)(1072) من طريق يحيى بن بكير، عن ابن لهيعة، به.
وأورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘( 2/329)(3934)، وقال: رواه أحمد والطبراني في ’’الكبير‘‘، وفيه ابن لهيعة وفيه كلام.
وأورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘( 2/32911)(3935)وقال :وفيه ابن لهيعة.قلت: ذكر أم هانئ أخت علي بن أبي طالب وذكر لها الحديث الأول وذكر الثانية وأنها أنصارية وترجم لها وفي الآخر ابن لهيعة.
’’ابن لهيعة‘‘ قال فیه ألإمام الترمذي في ’’سننه‘‘(1/61)(10):وابن لهيعة ضعيف عند أهل الحديث؛ ضعفه يحيى بن سعيد القطان وغيره من قبل حفظه.
وقال ابن حجر العسقلاني في’’تقريب‘‘(319)(3552)عبد الله بن لهيعة بفتح اللام وكسر الهاء بن عقبة الحضرمي أبو عبد الرحمن المصري القاضي صدوق من السابعة خلط بعد احتراق كتبه ورواية بن المبارك وابن وهب عنه أعدل من غيرهما وله في مسلم بعض شيء مقرون مات سنة أربع وسبعين وقد ناف على الثمانين م د ت ق.
وقال ابن عدي في ’’الكامل‘‘(5/253)(977)وهذا الذي ذكرت لابن لَهِيعَة من حديثه وبينت جزءا من أجزاء كثيرة مما يرويه بن لَهِيعَة عن مشايخه وحديثه حسن كأنه يستبان عَمَّن روى عنه، وَهو ممن يكتب حديثه.
قال الدكتور أحمد شاكرفي ’’تعليقه علي سنن الترمذي ‘‘(1/15)(10)فقد قال: هو ثقة صحيح الحديث، وقد تكلم فيه كثيرون بغير حجة من جهة حفظه، وقد تتبعنا كثيرا من حديثه وتفهمنا كلام العلماء فيه فترجح لدينا أنه صحيح الحديث.
وله شواهد من حديث كعب بن مالك الأنصاري:
أخرجه النسائي في ’’المجتبى‘‘ (4 / 108) (2072 ) ولفظه: إنما نسمة المؤمن طائر في شجر الجنة حتى يبعثه الله عز وجل إلى جسده يوم القيامة .
وهذا الحديث أخرجه ابن ماجه في ’’سننه‘‘ (5 / 337) (4271) ومالك في ’’الموطأ‘‘ (1 / 336) (820 / 275) وأحمد في’’مسنده‘‘(25/55)(15776)(25/65)(15787) والطبراني في ’’الكبير‘‘(19 / 63) (119) ، (19 / 64) (120) ، (19 / 64) (121) ، (19 / 65) (123) ، (19 / 65) (124) ، (19 / 66) (125) وعبد بن حميد في ’’المنتخب من مسنده‘‘ (1 / 147) (376).

تحفة الأحوذي: (رقم الحديث: 1641، 222/5، ط: دار الكتب العلمية)
وفي حديث بن مسعود عند مسلم أرواحهم في أجواف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل الحديث.
قال في المرقاة وقد تعلق بهذا الحديث وأمثاله بعض القائلين بالتناسخ وانتقال الأرواح وتنعيمها في الصور الحسان المرفهة وتعذيبها في الصور القبيحة وزعموا أن هذا هو الثواب والعقاب وهذا باطل مردود لا يطابق ما جاءت به الشرائع من إثبات الحشر والنشر والجنة والنار ولهذا قال في حديث آخر حتى يرجعه الله إلى جسده يوم بعثه الأجساد قال بن الهمام اعلم أن القول بتجرد الروح يخالف هذا الحديث كما أنه يخالف قوله تعالى فادخلي في عبادي انتهى
وفي بعض حواشي شرح العقائد اعلم أن التناسخ عند أهله هو رد الأرواح إلى الأبدان في هذا العالم لا في الآخرة إذ هم ينكرون الآخرة والجنة والنار ولذا كفروا انتهى ،قلت: على بطلان التناسخ دلائل كثيرة واضحة في الكتاب والسنة منها قوله تعالى حتى إذا جاء أحدهم الموت قال رب ارجعون لعلي أعمل صالحا فيما تركت كلا إنها كلمة هو قائلها ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 361 Mar 16, 2023
marne / marnay / inteqal / death ka bad insan / insaan / aadmi / murde / murday ki rooh / roh janat / jannat me /mein parindo ki shakal me /mein darakhto / perro per latakti rehti hai. hadis / hadees ki tehqeeq / tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.