resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: تین ہلاک کرنے والے، تین نجات دینے والے، تین گناہوں کا کفّارہ اور تین درجات کو بلند کرنے والے اعمال ، روایت کی تحقیق (32218-No)

سوال: محترم مفتی صاحب! ذیل میں ذکر کردہ روایت کا ترجمہ اور حکم ذکر کردیں:
عن ابن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: ثلاث مهلكات، وثلاث منجيات، وثلاث كفارات، وثلاث درجات; فأما المهلكات: فشح مطاع، وهوى متبع، وإعجاب المرء بنفسه. وأما المنجيات: فالعدل في الغضب والرضا، والقصد في الفقر والغنى، وخشية الله في السر والعلانية. وأما الكفارات: فانتظار الصلاة بعد الصلاة، وإسباغ الوضوء في السبرات، ونقل الأقدام إلى الجماعات. وأما الدرجات: فإطعام الطعام، وإفشاء السلام، والصلاة بالليل والناس نيام.

جواب: دریافت کردہ روایت کو امام طبرانی نے اپنی کتاب "معجم الأوسط" میں، جبکہ کلمات کی تقدیم وتاخیر کے ساتھ امام بزار رحمہما اللہ نے اپنی "مسند " میں، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے "مجمع الزوائد " اور تقریب البغیة" ميں روایت کو ذکر کیا ہے، البتہ روایت کی سند میں" ابن لہیعہ" جیسے مجہول راوی ہیں، جس کی وجہ سے علامہ طبرانی، ہیثمی اور مناوی رحمہم اللہ نے روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم فضائل کے باب میں توسع اور دیگر روایات سے مضمون کی تائید ہونے کی وجہ سے روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔ ذیل میں روایت کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
"حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، تین چیزیں نجات (دوزخ سے چھٹکارہ) دینے والی ہیں ، تین چیزیں (گناہوں کا) کفّارہ ہیں ، اور تین چیزیں درجات (کی بلندی کا باعث) ہیں۔
تین چیزیں ہلاک کرنے والی (یہ ہیں):(1) ایسا بخل و کنجوسی جس میں (حقوق سے کوتاہی کرکے) پیروی کی جائے (2) خواہشات کی اتباع (3) خود پسندی یعنی اپنے آپ میں تکبر کرنا۔
تین چیزیں (باعث) نجات (یہ ہیں):(1)غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں عدل وانصاف کا قیام (2) تنگدستی و خوشحالی ، میں میانہ روی اختیار کرنا (3) تنہائی اور اعلانیہ ہر صورت اللہ تعالی سے ڈرنا۔
تین چیزیں (گناہوں کے لیے) کفّارات (مٹانے والی یہ ہیں):(1) ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا (2)سخت سردی میں اچھی طرح سے مکمل وضو کرنا (3) نماز باجماعت کے لئے قدموں کا اٹھانا
تین چیزیں (آخرت کے لحاظ سے)درجات(بلند کرنے والی یہ ہیں) :(1) (اللہ کی مخلوق کو) کھانا کھلانا (2 ) سلام کو عام کرنا(3) رات کو نماز (تہجد) پڑھنا ،جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
المعجم الأوسط، لأبي القاسم سلیمان بن أحمد الطبراني (المتوفى: 360ه)، من اسمه: محمد، 47/6، المحقق: طارق بن عوض الله بن محمد عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، الناشر: دار الحرمين – القاهرة:
عن ابن عمر-رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث مهلكات، وثلاث منجيات، وثلاث كفارات، وثلاث درجات. فأما المهلكات: فشح مطاع، وهوى متبع، وإعجاب المرء بنفسه. وأما المنجيات: فالعدل في الغضب، والرضى، والقصد في الفقر، والغنى، وخشية الله في السر والعلانية. وأما الكفارات: فانتظار الصلاة بعد الصلاة، وإسباغ الوضوء في السبرات، ونقل الأقدام إلى الجماعات. وأما الدرجات: فإطعام الطعام، وإفشاء السلام، وصلاة بالليل، والناس نيام»
لم يرو هذا الحديث عن سعيد بن جبير إلا عطاء بن دينار، ولا عن عطاء إلا ابن لهيعة، تفرد به الوليد بن عبد الواحد، ولا يروى عن ابن عمر إلا بهذا الإسناد "

مسند البزار، لأبي بکر أحمد بن عمرو البزار (المتوفى: 292ه)، (مسند أبي حمزة أنس بن مالک، 114/13، المحقق: عادل بن سعد (حقق الأجزاء من 10 إلى 17)، الناشر: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة):
عن أنس-رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ثلاث كفارات، وثلاث درجات، وثلاث منجيات، وثلاث مهلكات۔ فأما الكفارات: فإسباغ الوضوء في السبرات، وانتظار الصلوات بعد الصلوات، ونقل الأقدام إلى الجمعات۔ وأما الدرجات: فإطعام الطعام، وإفشاء السلام، والصلاة باليل والناس نيام۔ وأما المنجيات: فالعدل في الغضب، والرضا والقصد في الفقر والغنى، وخشية الله في السر والعلانية۔ وأما المهلكات: فشح مطاع، وهوى متبع، وإعجاب المرء بنفسه.

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، لأبي الحسن نور الدین الهيثمي (ت 807ه)،(باب في المنجيات والمهلكات، 90/1، المحقق: حسام الدين القدسي، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة):
عن ابن عمر-رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ثلاث مهلكات، وثلاث منجيات، وثلاث كفارات، وثلاث درجات۔ فأما المهلكات: فشح مطاع، وهوى متبع، وإعجاب المرء بنفسه. وأما المنجيات: فالعدل في الغضب والرضا، والقصد في الفقر والغنى، وخشية الله في السر والعلانية. وأما الكفارات: فانتظار الصلاة بعد الصلاة، وإسباغ الوضوء في السبرات، ونقل الأقدام إلى الجماعات. وأما الدرجات: فإطعام الطعام، وإفشاء السلام، والصلاة بالليل والناس نيام»". رواه الطبراني في الأوسط، وفيه "ابن لهيعة"، ومن لا يعرف.
وکذا أخرجه نور الدین الهیثمي في "تقريب البغية بترتيب أحاديث الحلية"، ‌‌باب في المنجيات والمهلكات، 88/1، المحقق: محمد حسن محمد حسن إسماعيل، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان):

فيض القدير شرح الجامع الصغير، لعبدالرؤوف القاهري المناوي (ت 1031ه)، (حرف الثاء، 307/3، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر):
قوله ﷺ:(وأما الدرجات: فإطعام الطعام) للجائع (وإفشاء السلام) بين الناس من عرفته ومن لم تعرفه (والصلاة بالليل والناس نيام) أي: التهجد في جوف الليل حال غفلة الناس، واستغراقهم في لذة النوم۔ وذلك هو وقت الصفاء وتنزلات غيث الرحمة وإشراق الأنوار۔
(طس) وكذا أبو نعيم (عن ابن عمر) بن الخطاب -رضي الله عنه- ۔ قال العلاء: سنده ضعيف وعدّه في "الميزان" من المناكير۔ قال الهيثمي: فيه "ابن لهيعة" ومن لا يعرف۔

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees