resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عنوان: "سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ کی قربانی" حدیث کی تشریح ، ایک اشکال اور اس کا جواب (32312-No)

سوال: میں احادیث کی تشریحات کو تلاش کرنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں، خاص طور پر وہ جو کہ حدیبیہ کے معاہدے کے دوران قربانی سے متعلق ہیں۔
"جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ کی قربانی کی گئی"۔ اس روایت میں عام فہم تو بات یہ ہے کہ قربانی کو سات افراد میں تقسیم کیا گیا تھا، لیکن میں متجسس ہوں کہ کیا کوئی متبادل تشریح یہ بتاتی ہے کہ ہر قربانی کو سنبھالنے کے لیے سات آدمیوں کو مقرر کیا گیا تھا ،کیونکہ کئی روایات ہیں کہ ایک بھیڑ بھی پورے گھر کے لیے یا امت کے لیے قربان کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں حدیبیہ میں 1300 سے 1400 صحابہ کے موجود ہونے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف نصف صحابہ نے قربانی کیوں مکمل کی (اگر ملکیت کی سخت تقسیم ہو؟) حدیث کے علوم میں آپ کی مہارت کو دیکھتے ہوئے میں اس معاملے میں آپ کی کسی بھی بصیرت کی بہت تعریف کروں گا۔ کیا کوئی کلاسیکی یا ہم عصر اسکالر ہیں جنہوں نے اس نقطہ نظر کی جانچ کی ہے؟ اس کے علاوہ کیا کوئی بنیادی ماخذ ہیں جو حدیبیہ مہم کے دوران قربانیوں کے لاجسٹک پہلو پر بحث کرتے ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ کسی ماہر عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر محض احادیث مبارکہ کے ظاہری ترجمہ کو سامنے رکھ کر اس کی تشریح کرنا درست نہیں ہے، چونکہ مختلف حالات و مواقع کی مناسبت سے نبیﷺ کی جانب سے ہدایات و فرمودات کو دیکھ کر اولاً دینی احکام میں تردّد واضطراب (confusion) واقع ہونے اور ثانیاً نفسانی خواہشات کی پیروی کا اندیشہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات بظاہر متعارض نصوص کو دیکھ شیطانی وساوس و اوہام کو جگہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے، جس کی بناء پر ایمان سے ہاتھ دھونے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ جیسے: کوئی نابینا شخص ہو، جو راستے کے خطرات اور نشیب وفراز سے ناواقف ہو، اور بغیر کیس بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر پُر خطر راستے پر چل پڑے تو غالب امکان ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گرپڑے۔
لہذا احادیث مبارکہ کی تشریح و توضیح کے سلسلہ میں سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث اور دین وشریعت کے ماہرین ہیں، ان کی تشریحات کو دیکھا جائے اور انہی پر اعتماد کیا جائے۔ چنانچہ ان میں نبیﷺ کے عہد مبارک کے جو قریب تر ہوگا، اس کی بات اسی قدر نفوس قدسیہ سے براہِ راست یا چند وسائط کے ذریعہ منتقل ہونے کے سبب زیادہ قابلِ اعتماد ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر وتوضیح کو "آثار صحابہ" کے عنوان سے مستقل طور پر یکجا کرکے زیر بحث لایا جاتا ہے، اور جمہور صحابہ کی رائے کو محقّقین عظام رحمہم اللہ اپنی تفاسیر و شروحات میں ذکر فرماتے ہیں۔ جس سے دینِ اسلام کی اصل روح کو مجروح ہونے اور مقاصدِ شریعت کو متاثر ہونے سے بچایا جاتا ہے۔
ہر صاحبِ نصاب پر مستقل قربانی لازم ہے:
اس کے بعد یہ بات جان لینی چاہیے کہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک گھر میں متعدد صاحب نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیونکہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ" جو شخص صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے"۔ (سنن ابن ماجه، أبوعبدالله محمد بن یزید القزویني (المتوفى: 273ھ)، کتاب الأضاحي،باب الأضاحي، واجبة هي أم لا؟، 1042/2، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء الكتب العربية)
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہذا دیگر عبادات(نماز ، روزہ، زکاة وحج ) کی طرح اس کی ادائیگی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہے، چنانچہ نبیﷺ اپنی قربانی فرماتے تو ازواج مطہرات کے لیے الگ قربانی کرتے تھے، اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے مستقل قربانی کی جاتی تھی، ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں۔
پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی والی روایت کی تشریح دیگر روایات کی روشنی میں:
سنن ترمذی کی ایک روایت ہے جس میں آتا ہے کہ "رسول اللہﷺ کی زمانے میں ایک شخص اپنی طر ف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا، اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا ، اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا"( سنن الترمذي، أبواب الأضاحي، باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزئ عن أهل البيت، 91/4، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر)
چنانچہ اسی حدیث کو بنیاد بناتے ہوئے امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اگر ایک گھر میں کئی صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک بکری کی قربانی بھی سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی۔
مگر حنفی مسلک کے بانی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو دیگر متعدد احادیث کی روشنی میں ثواب میں شرکت پر محمول کیا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ایک قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے سارے گھر والوں کو شریک کرلے تو یہ جائز ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان کیا اور دوسرا مینڈھا قربان کرکے فرمایا کہ "یہ قربانی اپنی پوری امت کے لوگوں کی طرف سے کررہا ہوں جو قربانی نہیں کرسکیں"۔ (سنن الترمذي،أبواب الأضاحي، 100/4، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر)
اب ظاہر بات ہے کہ اس قربانی کی وجہ سے امت کے ذمہ سے فریضہ قربانی ساقط نہیں ہوا، بلکہ اس قربانی کے ثواب میں پوری امت کو شریک کرلیا ہے۔
اسی طرح بعض شرّاح نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام تھی، جس کی وجہ سے بعض اوقات پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سےقربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی، اس لئے وہ تمام اہلِ خانہ کو ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔
سوال میں ذکر کردہ تشریح سے بھی جمہور کے موقف کی تائید :
باقی جہاں تک سائل نے سوال میں روایت کی تشریح ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک ایک قربانی سنبھالنے کے لئے سات سات افراد کو مقرر کیا تو اس بات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑی قربانی سات افراد کی جانب سے ہوتی ہے، کیونکہ ہر شخص کے لیے اپنی قربانی کا جانور سنبھالنا باعث اجر وثواب ہے، اب جب ایک قربانی کے لیے سات افراد کو کہا جائے تو اس کا یہی مطلب معلوم ہوتا ہے کہ یہ قربانی کا جانور انہی سات افراد کی طرف سے ہے۔ چونکہ سائل کی ذکر کردہ تشریح کا مفہوم کسی شارحِ حدیث نے ذکر کیا ہے، اور نہ ہی مجموعی شریعت کو دیکھ کر استدلال درست معلوم ہوتا ہے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب شخص پر دیگر عبادات کی طرح الگ الگ قربانی کرنا لازم ہے، یہی بات اکثر وبیشتر روایات سے ثابت ہے۔ باقی جن بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک جانور کو پورے گھر کی طرف سے کافی قرار دیا گیا تو وہ شارحینِ حدیث کے نزدیک مؤول ہیں۔
صلحِ حدیبیہ کے موقع پر کتنے اصحاب رسول ﷺ نے قربانی کی؟
اس حوالہ سے "طبقات ابن سعد" میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہماری تعداد 1400 تک تھی، جبکہ ان میں (مالی تنگی کی وجہ سے) قربانی کی سعادت سے محروم افراد کی تعداد زیادہ تھی (الطبقات الکبری، غزوة رسول الله ﷺ الحدیبیة، 79/2، الناشر: دار الكتب العلمية)
چنانچہ "مسند احمد " کی روایت میں تحدید مذکور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے جو جانور ساتھ لائے اور نبیﷺ کے ہمراہ موجود جانوروں کی مجموعی تعداد کم وبیش 100 تک تھی، چنانچہ ان میں 63 اونٹ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور باقی جانوروں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر کیا"۔( مسند أحمد (المتوفى: 241هـ)، لأبي عبدالله أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني (المتوفى: 241هـ) ، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة)
صلح حدیبیہ کے حوالہ سے معاصر اہل علم کی خدمات:
غزوہ حدیبیہ کے حوالہ سے ایک عرب عالم "حافظ بن محمد عبد الله الحكمي" نے متعدد روایات کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں مختلف کتبِ حدیث و مصادرِ سیرت کی جانب مراجعت کرکے تکرار سے اجتناب کرتے ہوئے ایک کتابی صورت بعنوان" مرويات غزوة الحديبية جمع وتخريج ودراسة” مرتب کی ہے، جس میں علماء وشراح کے اقوال وتشریحات کو بھی کسی حد تک جمع کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
سنن ابن ماجه، أبوعبدالله محمد بن یزید القزویني (المتوفى: 273ه)،کتاب الأضاحي،باب الأضاحي، واجبة هي أم لا؟، 1042/2، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء الكتب العربية):
عن أبي هريرة-رضي الله عنه- ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»

سنن الترمذي، أبو عیسی محمد بن عیسی السورة الترمذي (المتوفى: 279ه)، (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في الاشتراك في الأضحية، محقق المجلد الرابع: إبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف، 89/4، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر):
عن جابر-رضي الله عنه- قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة»: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم، من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وأحمد، وإسحاق-رحمهم الله-۔ وقال إسحاق: «يجزئ أيضا البعير عن عشرة واحتج بحديث ابن عباس»

سنن الترمذي، أبو عیسی محمد بن عیسی السورة الترمذي (المتوفى: 279ه)، (أبواب الأضاحي، باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزي عن أهل البيت، محقق المجلد الرابع: إبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف، 91/4، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر):
عن عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري-رضي الله عنه-: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى» هذا حديث حسن صحيح

سنن الترمذي، أبو عیسی محمد بن عیسی السورة الترمذي (المتوفى: 279ه)، (أبواب الأضاحي، محقق المجلد الرابع: إبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف، 100/4، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر):
عن جابر بن عبد الله-رضي الله عنه- قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمّن لم يضح من أمتي»

الطبقات الکبری لابن سعد (المتوفى: 230ه) ، (غزوة رسول الله ﷺ الحدیبیة، 79/2، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت):
عن جابر-رضي الله عنه- قال: نحر النبي - صلى الله عليه وسلم - سبعين بدنة عام الحديبية. البدنة عن سبعة. وزاد محمد بن عبيد في حديثه: "وكنا يومئذ ألفا وأربعمائة ومن لم يضح يومئذ أكثر ممن ضحى"۔

مسند أحمد (المتوفى: 241ه)، لأبي عبدالله أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني (المتوفى: 241ه) ، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة):
عن جعفر، حدثني أبي، قال: أتينا جابر بن عبد الله-رضي الله عنه- ، وهو في بني سلمة، فسألناه عن حجة النبي صلى الله عليه وسلم، فحدثنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: مكث بالمدينة تسع سنين لم يحج۔۔۔۔
ثم قال:“فكانت جماعة الهدي الذي أتى به علي-رضي الله عنه- من اليمن، والذي أتى به النبي صلى الله عليه وسلم مائة، فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده ثلاثة وستين، ثم أعطى عليا فنحر ما غبر، وأشركه في هديه"۔

شرح معاني الآثار لأبي جعفر الطحاوي )،باب المیم، تحقیق مصطفی بن أحمد العلوي ، محمد عبدالکبیر البکري، الناشر: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية- المغرب):
وقال أبو جعفر الطبري: اجتمعت الحجة على أن البقرة والبدنة لا تجزئ عن أكثر من سبعة، قال: وفي ذلك دليل على أن حديث ابن عباس-رضي الله عنه- وما كان مثله خطأ، ووهم أو منسوخ۔ وقال أبو جعفر الطحاوي: قد اتفقوا على جوازها عن سبعة، واختلفوا فيما زاد۔ فلا تثبت الزيادة إلا بتوقيف لا معارض له "۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،لأبي بکر علاء الدین الکاساني (المتوفى: 587ه) ، (کتاب التضحیة، فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية، 5/ 70، الناشر: دار الكتب العلمية):
"وأما قدره: فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد، وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين، مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين، أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته، فكيف ضحّى بشاة واحدة عن أمته -عليه الصلاة والسلام-؟
(فالجواب) أنه -عليه الصلاة والسلام- إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.
وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل، بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً، فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة ، سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين، فكذا البقرة". فقط والله اعلم۔

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees