resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: دین میں اچھے یا برے طریقہ کے موجد (آغاز کرنے والے) کی جزاء و سزا سے متعلق روایت کی تحقیق (32212-No)

سوال: رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: "جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی ان سب کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی ان سب کے برابر بوجھ اٹھانا پڑے گا، بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کوئی کمی کی جائے۔" (صحیح مسلم 1017) مفتی صاحب! برائے مہربانی اس حدیث کی تصدیق فرما دیں۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح" میں ذکر کیا ہے، روایت کی سند میں موجود تمام راوی ثقہ ومتعبر ہیں، لہذا راویوں کے قابلِ اعتبار ہونے اور دیگر شواہد سے تائید ملنے کی بناء پر روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔ مکمل روایت کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
ترجمہ: حضرت منذر بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت جریر سے نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ دن کے ابتدائی حصے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے کہ کچھ لوگ ننگے پیر، ننگے بدن چمڑے کی عبائیں یا چادریں لٹکائے ہوئے آئے، ان کی تلواریں لٹکی ہوئی تھیں اور ان کی اکثریت بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے، ان کے فقر و فاقہ اور خستہ حالت کو دیکھ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے پھر باہر تشریف لائے اور حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، نماز کے بعد خطبہ دیا اور فرمایا: "اے لوگو! اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ آخر تک اسی آیت کو پڑھا۔ اس کے بعد سورۃ الحشر کی آیت پڑھی: "اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ ہر شخص اس بات کو دیکھے کہ اس نے آئندہ کل اخرت کے لیے آگے کیا روانہ کیا ہے"۔
انسان دینار سے صدقہ دے، درہم سے صدقہ دے، کپڑے صدقہ کرے، گندم اور کھجور صدقہ دے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کھجور ہو تو بھی صدقہ میں لے آئے۔ چنانچہ ایک انصاری جوان ایک تھیلی لے کر آیا جو اتنی بھاری تھی کہ اس کے ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز ہو رہے تھے بلکہ عاجز ہوگئے تھے پھر تو لوگوں نے صدقات کا تانتا باندھ لیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اناج اور کپڑے کے دو ڈھیر لگ گئے ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سونے کی طرح کندن بن کر چمکنے لگا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے اسلام میں کوئی عمدہ اور اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور اس کے بعد جو بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی غلط طریقہ جاری کیا تو اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور اس کے بعد جو بھی اس طریقے پر عمل کرے گا ان کا بھی وبال اسی کی گردن پہ ہوگا اور ان کرنے والوں کے گناہ میں کمی نہیں ہوگی۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر:1017)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :

صحیح مسلم: (كتاب الزكاة، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة او كلمة طيبة وانها حجاب من النار، 704/3، رقم الحدیث: 1017، المحقق: محمد فؤاد عبدالباقی، الناشر: مطبعة عیسی البابیالحلبی، القاھرة)
حدثني محمد بن المثنى العنزي ، اخبرنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن المنذر بن جرير ، عن ابيه ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدر النهار، قال: فجاءه قوم حفاة عراة مجتابي النمار او العباء، متقلدي السيوف عامتهم من مضر بل كلهم من مضر، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى بهم من الفاقة، فدخل ثم خرج، فامر بلالا فاذن واقام فصلى، ثم خطب فقال:{ يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة سورة النساء} آية 1 إلى آخر الآية {إن الله كان عليكم رقيبا }-سورة النساء آية والآية التي في الحشر- {اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله} -سورة الحشر آية 18- تصدق رجل من ديناره من درهمه من ثوبه من صاع بره من صاع تمره، حتى قال: ولو بشق تمرة"، قال: فجاء رجل من الانصار بصرة كادت كفه تعجز عنها بل قد عجزت، قال: ثم تتابع الناس حتى رايت كومين من طعام وثياب، حتى رايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كانه مذهبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شيء "

مرقاة المفاتیح، لأبي الحسن نور الدین علي بن سلطان الملا الهروي القاري (ت 1014ه)، (کتاب العلم، 294/1، الناشر: دار الفكر، بيروت – لبنان)
وأجر من عمل بها) أي: بتلك الحسنة (من بعده) : من بيان من، وفي المصابيح: وأجر من عمل بعده. قال ابن الملك أي بعد ممات من سنها قيد به لما يتوهم أن ذلك الأجر يكتب له ما دام حيا اه. قلت: "وفيه أنه يتوهم حينئذ أن الأجر لا يكتب له وهو حي، فالأحسن أن يقال من بعد ما سنه"۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،لأبي الحسن نور الدين علي الهيثمي (ت 807 ه)، (کتاب العلم، باب حفظ العلم، 168/1، المحقق: حسام الدين القدسي، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة)
وعن واثلة بن الأسقع، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌سن سنة ‌حسنة فله أجرها ما عمل به في حياته وبعد مماته حتى تترك، ومن سن سنة سيئة فعليه إثمها حتى تترك، ومن مات مرابطا في سبيل الله جرى عليه عمل المرابط حتى يبعث يوم القيامة».
رواه الطبراني في الكبير، ورجاله موثقون.

فتح الباري بشرح البخاري، لابن حجر العسقلاني (773 - 852 ه)،(کتاب التفسیر، باب قول الله تعالى {ومن أحياها}، 193/13، رقم كتبه وأبوابه وأحاديثه: محمد فؤاد عبد الباقي ، قام بإخراجه وتصحيح تجاربه: محب الدين الخطيب، الناشر: المكتبة السلفية – مصر)
وقد أخرج مسلم من حديث جرير: ‌من ‌سن في الإسلام سنة ‌حسنة كان له أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها إلى يوم القيامة وهو محمول على من لم يتب من ذلك الذنب.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees