resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کیا جنگ یرموک میں ساٹھ ہزار کفّار کے مقابلہ میں صرف ساٹھ صحابہ کرامؓ تھے؟ تحقیق (32233-No)

سوال: مفتی صاحب! ہم سنتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں ساٹھ ہزار کفار کے مقابلہ میں ساٹھ صحابہ کرامؓ تھے، اس کے باوجود اللہ نے صحابہ کرام کو فتح دی۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ سوال میں پیش کردہ بات بالکل درست ہے، جس کا تذکرہ کتب تاریخ میں ملتا ہے، تاہم یہ تعداد ابتدائی طور پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے انتخاب رائے سے میدان میں نکلی، جو کفّار کو شکست دینے کے بعد ایک معرکہ خیز جنگ کا سبب بنی، اس میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 40 سے 60 ہزار کے درمیان تک ذکر کی جاتی ہے۔ ذیل میں اس حوالہ سے مختصر جنگ یرموک کی صورتحال کو پیش کیا جاتا ہے۔
جنگ یرموک، ایک مختصر تاریخ:
جنگِ یرموک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کی نمایاں اور فیصلہ کن لڑائی ہے، جس میں مسلمانوں نے بہادری، حکمتِ عملی اور ایمان کی بدولت رومی لشکر کو شکست دی۔ یہ جنگ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان بقول ابن جریر طبری سن 13 ہجری، جبکہ جمہور کے نزدیک سن 15ھ میں لڑی گئی۔ یہ جنگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں شروع ہوئی، لیکن دورانِ جنگ آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو منتقل ہوئی۔ اس لڑائی کو 10 مراحل پر تقسیم کرکے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
مرحلہ اوّل — رومی افواج کا اجتماع اور مقام یرموک کا انتخاب:
رومی بادشاہ ہرقل کو خبر ملی کہ مسلمانوں نے متعدد مقامات فتح کر لیے تو بہت پریشان ہوا اور ہر جانب سے افواج طلب کیں۔ رومی افواج اتنی بڑی تھی کہ ان کا پھیلاؤ انطاکیہ سے رومۃ الکبریٰ تک بتایا گیا۔ تاریخی روایات کے مطابق رومن امپائر کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ، جبکہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً 40–60 ہزار تک تھی۔ مگر مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہؓ نے لشکر کو تسلی دی اور ایمان و جرأت دلائی۔ عمومی مشورہ یہ تھا کہ شام میں رہ کر دشمن سے لڑا جائے اور شام کو دشمن کے لیے خالی نہ کیا جائے، مگر خالد بن ولیدؓ نے خرد مندی سے کہا کہ بہتر یہ ہے ہم کھلے میدان یرموک کی طرف نکلیں، تاکہ دشمن کو مقابلے کے لیے اپنی مرضی کا میدان دیں اور مدینہ سے مزید کمک ملنے کے امکانات بہتر ہوں۔ یہی فیصلہ کیا گیا اور لشکر شام میں پڑاؤ ڈالنے کے بجائے یرموک کی سمت روانہ ہوا۔ چنانچہ کچھ فاصلے پر موجود رومیوں کی افواج بھی میدان میں صف بستہ ہوگئی۔
مرحلۂ دوم — خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا 60 مجاہدین صحابہؓ کا انتخاب اور حکمت:
خالد بن ولیدؓ نے بڑی دانشمندی سے مسلمانوں کو عجز وانکساری کا درس دیا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے ذہن کو اس طرح موڑا کہ ہم حزب الرحمن ہیں، اور وہ حزب الشیطان، لہذا ہمیں مقابلہ پر نہیں جانا چاہیے، کیونکہ اس سے ہماری طاقت کم پڑجائے گی، سو میں صرف 30 نامور اشخاص کو ساتھ لیکر مقابلہ کروں گا، ان میں ہر آدمی دو ہزار کے مدمقابل ہوگا۔ مگر حضرت ابو سفیان اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے شدید اصرار پر آپ 60 افراد کو لیجانے پر رضامند ہوئے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مسلمان ایک ہزار کے مقابلے پر ہوا۔ بہرحال اس مختصر باہمت جماعت نے بے مثال شجاعت کے جوہر دکھائے، جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں رومی افواج ہلاک ہوئی اور میدانِ جنگ سےبھاگ کھڑی ہوئی۔ اس جھڑپ میں میں 10 مسلمانوں کی طرف سے بھی شہید ہوئے، اور 15 افراد گرفتار ہوئے، جس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو شدید صدمہ ہوا، مگر اس حملے نے دشمن کا مورال توڑ دیا اور میدانِ جنگ کی لکیریں واضح ہو گئیں۔
مرحلۂ سوم — جنگ کا آغاز
اس کے بعد دونوں طرف سے مکمل جنگ کا آغاز ہوا۔ رومی عظیم لشکر نے مختلف محاذ سے حملے کیے، مگر مسلمانوں نے مضبوط دفاعی پوزیشنیں اختیار کیں اور خالد بن ولیدؓ کی شاندار فوجی حکمتِ عملی سے استفادہ کیا۔چنانچہ آپ نے مختلف جماعتوں کی صورت میں الگ الگ جہت سے حملہ آور ہونے کے لیے صفیں درست کرائیں، جس کے نتیجہ میں رومی افواج بڑی تعداد کے باوجود تنظیمی خلل کا شکار ہوئی، آخر کار رومی لشکر میں انتشاری کیفیت و حالت پیدا ہوئی، ان میں بعض بھاگ نکلے اور بعض کو قیدی بنالیا گیا۔
مرحلہ چہارم: قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات:
اس کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے 15قیدی صحابہ رضی اللہ عنہم کی رہائی کے لیے جرنیل باہان کے دربار پر جانے کا ارادہ کیا، جبکہ باہان آپ کے قتل کی گھات لگائے بیٹھا تھا، چنانچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے اصرار پر 100 افراد کے ہمراہ دربار پہنچے۔ باہان نے انہیں صلح اور معاوضے کی پیشکش کی، مگر مسلمانوں نے اسے قبول نہ کیا اور عزت و ایمان کا موقف اختیار کیا۔ باہان نے کچھ قیدیوں کے قتل کی دھمکی دی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دلیرانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم اور ہمارے ساتھی شہادت کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ باہان شدید برہم ہوا، مگر بین الاقوامی قوانین کے مطابق قاصد کے قتل کرنے سے خود کو باز رکھا اور میدانِ جنگ تیار کرنے کا حکم دیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مطالبے پر تمام اصحاب کو رہا کردیا۔
پانچواں مرحلہ : صف بندی اور پہلی بڑی جھڑپ:
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے لشکر کی صف بندی کا مکمل اختیار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا، جبکہ دوسری طرف رومی کمانڈر باہان نے بھی اپنی فوج کو ترتیب دے کر میدان میں اتارا۔ ابتدا میں دونوں طرف سے دو بدو جنگ کا آغاز ہوا، جس میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر سمیت مختلف صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم نے بہادری کی مثال قائم کیں، جس سے دشمن کا مورال کمزور ہوا، بہرحال رات کے وقت جھڑپیں رک گئیں، اس موقع پر مسلمانوں کا نقصان نسبتاً کم رہا، دونوں طرف زخموں کی مرہم پٹی کی جانے لگی اور جنگ وقتی طور پر موقوف ہوئی۔
چھٹا مرحلہ: باہان کی جانب سے اچانک منظّم حملہ اور فیصلہ کن محاذ آرائی:
رومی کمانڈر باہان نے ابتدا میں فیصلہ کن محاذ آرائی کو مؤخّر رکھا، مگر آٹھویں دن اچانک بڑے پیمانے پر فوج جمع کر کے صبح نمازِ فجر کے وقت مسلمانوں پر حملہ کیا، اس حملے میں رومیوں نے خونریز یلغار کی کوشش کی۔ حضرت ابو عبیدہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما نے فوری طور پر لشکر کو منظّم کیا، پانچ سو مجاہدین فوراً صفوں میں کھڑے کیے، عورتوں و بچوں کو محفوظ مقام پر بھیجا، جبکہ میمنہ اور میسره دونوں جانب سے شدید تصادم ہوا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب سے پُر زور حملوں نے دشمن کے میسرہ حصہ کو شکست فاش کیا، جس سے دشمن بھاگ کھڑے ہوئے، لڑائی کا سلسلہ غروب شمس تک جاری رہا اور رات کو دوبارہ جنگ بندی ہوئی، اس مرحلے میں مسلمان بہادری اور منصوبہ بندی کی بدولت فتح کی جانب بڑھ گئے۔
ساتواں مرحلہ: تیر اندازی اور یوم التعوّیر:
اگلی صبح دشمن نے قریباً دس ہزار شہسواروں کے ساتھ ایک جارحانہ حملہ کیا، جس میں دو علاقوں کے گورنر جہنم رسید ہوئے۔ ان دو بڑی ہلاکتوں کے بعد باہان سخت غصّے میں آگیا اور طوفانی تیراندازی کا حکم دیا، جس سے صحابۂ کرام کی آنکھیں شدید زخمی ہوئیں، اسی مناسبت سے اس دن کو" یوم التعوّیر" کہا گیا۔ اس موقع پر بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بہادری دکھائی، مگر حالات کی نزاکت کو دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شدید اصرار کرتے ہوئے انہیں واپس بلا کر لشکر کا نظم بحال کیا۔ بہرحال رات میں جنگ رک گئی اور دونوں فریقین نے زخمیوں کی مرہم پٹی میں خود کو مشغول کردیا۔
آٹھواں مرحلہ: رومی افواج کا بڑی تعداد میں ندی میں ڈوب جانا:
رومی لشکر کے ظلم وستم کا شکار ایک عیسائی ابو الجعید شخص نے مسلمانوں کے سربراہان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ اگر دشمن کو سیدھا محاذ آرائی میں باندھ کر بھی مارنے کی کوشش کی جائے تو بھی کافی وقت درکار ہوگا، جبکہ اس کے بالمقابل انہیں مسلمان اور رومیوں کے درمیان واقع گہری ندی میں حکمتِ عملی اختیار کرکے ڈبویا جاسکتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں میں سے ۵۰۰ بہادر سپاہی ان کے سپرد کیے گئے، اور انہیں ندی کے قریب ایک گھاٹ کے قریب بٹھاکر حملہ کا اعلان کیا۔ جب رومیوں نے مسلمانوں کی طرف سے حملہ کی صدا سن کر تعاقب کی کوشش کی تو ان کی تعداد کی کثرت اور بے توجہی سے دوڑ کے باعث متعدد رومی افواج گہرے پانی میں گر کر ڈوب گئے، جس سے ایک بڑی تعداد سمندر بُرد ہوئی۔
نواں مرحلہ: امیرِ لشکر باہان کا مقابلہ، جرجیل کا قتل اور باہان کا مایوسی میں پسپائی:
حضرت ابو عبیدہ اور خالد رضی اللہ عنہما میدان میں براہِ راست مقابلہ پر اترے، جرجیل رومی سربراہ دوسری طرف سے سامنے آیا اور سخت مقابلے کے بعد جہنم رسید ہوا، اس کے مرنے نے باہان کی کمر توڑدی اور اس نے بھاگنے کو راہ نجات تصوّر کیا، مگر اس کوشش میں بھی ناکام ہوا ، چنانچہ باہان مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں شدید زخمی ہوا، جس کے نتیجہ میں رومی لشکر میں انتشار بڑھ گیا۔ مسلم افواج نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پوری قوّت سے حملہ کر کے رومیوں کو پسپا کر دیا۔ رومی افواج کی تنظیم ٹوٹ گئی، اور بہت سے سپاہی یا تو مارے گئے یا بھاگ کر ندیوں میں ڈوب گئے۔ اس شکست نے رومی قائدانہ قوت کو بری طرح متاثّر کیا اور شام میں ان کی حکمرانی کے امکانات تار تار ہو گئے۔
دسواں مرحلہ: فتح کے بعد انتظام، غنیمت اور خط امیرالمؤمنین کو بھیجنا:
جنگ ختم ہونے پر مسلمان میدان میں باقی ماندہ غنیمت اور قیدیوں کا نظم سنبھالنے لگے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زخمیوں کی مرہم پٹی پر بھی توجہی اور انتظامی امور میں ضبط و شائستگی دکھائی۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے واقعہ کا مفصّل احوال مرتّب کرکے امیرِ المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خط کے ذریعے بھیجا، تاکہ فتح کی اطلاع اور آگے کے انتظامات مرتّب ہوں۔ جنگِ یرموک کی اس عظیم فتح نے شام میں رومی اثر و رسوخ کو مستقل طور پر کمزور کر دیا اور اسلامی سلطنت کے پھیلاؤ کو یقینی بنایا، مسلمانوں کی قیادت، حکمت عملی اور بے عدد قربانیوں نے یہ ثابت کیا کہ ایمان و اتحاد کتنے بڑے نتائج دے سکتے ہیں۔ یہ معرکہ امتِ مسلمہ کے لیے دائمی فخر اور تاریخِ جنگی حکمت کا روشن باب بن گیا۔ (از فتوحات شام مولانا فضل محمد یوسفزئی صاحب، معرکہ یرموک، صفحہ 400، مکتبہ ایمان ویقین)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
فتوح الشام، لأبي عبد الله محمد بن عمر بن واقد الواقدي (ت 207 ه)، (جبلة بن أيهم، 162/1، ضبطه وصححه: عبد اللطيف عبد الرحمن، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان):
قال الواقدي: وقد سمّى خالد بن الوليد -رضي الله عنه- الرجال الذين دعاهم لقتال جبلة بن الأيهم، إلا إني اختصرت في ذكرهم، وقدمت ذكر الأنصار -رضي الله عنه-؛ لأن خالد بن الوليد -رضي الله عنه- انتخب أكثر الرجال من الأنصار۔ فلما كثر النداء فيهم، قالت الأنصار: إن خالدا اليوم يقدم ذكر الأنصار، ويؤخر المهاجرين من ولد المغيرة بن قصي، ويوشك إنه يختبرهم أو يقدمهم للمهالك، ويشفق على ولد المغيرة.
قال الواقدي: فلما انتخب خالد بن الوليد من فرسان المسلمين ستين رجلا، كل واحد منهم يلقى جيشا بنفسه، قال لهم خالد بن الوليد -رضي الله عنه-: يا أنصار الله، ما تقولون في الحملة معي على هذا الجيش الذي قد أتى، يريد حربكم وقتالكم، فإن كان لكم صبر -وأيدكم الله بنصره مع صبركم- وهزمتم هؤلاء العرب المتنصرة، فاعلموا إنكم لجيش الروم غالبون۔ فإذا هزمتم هؤلاء العرب وقع الرعب في قلوبهم، فينقلبون خاسرين۔
قال الواقدي: وأنشد بيتا آخر، لم أدر ما هو؟ وخرج أمام المسلمين وأصحابه يقدمون إليه واحدا بعد واحد، حتى اجتمع إليه الستون رجلا الذين انتخبهم، وكان آخر من أقبل عليه الزبير بن العوام -رضي الله عنه- ومعه زوجته أسماء بنت أبي بكر الصديق -رضي الله عنها-، وهي سائرة إلى جانب أبيها عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق -رضي الله عنه-، وهي تدعو لهم بالسلامة والنصر، وتقول لاخيها: يا أخي، لا تفارق ابن عمة رسول الله ﷺ ووقت الحملة، اصنع كما يصنع، ولا تأخذكم في الله لومة لائم۔ قال: وودّع المسلمون الستين أصحابهم، وساروا بأجمعهم وخالد بن الوليد -رضي الله عنه- في أوساطهم، كأنه أسد قد احتوشته الأسود، ولم يزالوا حتى وقفوا بازاء العرب المتنصرة.

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees