سوال:
حسن افروز اپنی شادی کے 3 سال بعد منظر سے غاٸب ہوگیا، جبکہ 7 سال مزید گزرنے کے بعد اس کی بیوی کی دوسری شادی رحمت کریم سے کردی گٸ ہے، ایک بچی حسن افروز سے تھی، اب 4 بچے رحمت کریم سے بھی ہوگٸے ہیں، اچانک حسن افروز اب 13 سال کے بعد واپس آگیا ہے جس کی موت کا غالب گمان تھا۔ اب دونوں دعویدار ہیں کہ بیوں اس کی ہے، بتایا جائے کہ بیوی کس کی ہے؟ اگر پہلے شوہر کو ملتی ہے تو دوسرے شوہر اور اس کے بچوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں پہلے شوہر کے آنے سے دوسرے شوہر سے اس خاتون کا نکاح خود بخود ختم ہوجائے گا، اور پہلے شوہر سے اس کا نکاح برقرار رہے گا، البتہ اس پر دوسرے شوہر کی عدّت پوری کرنا لازم ہے اور عدّت پوری کرنے سے پہلے شوہرِ اوّل کا اس سے صحبت کرنا جائز نہیں، نیز عدّت کے دوران یہ خاتون پہلے شوہر کے پاس ہی رہے گی اور دوسرے شوہر سے جو اولاد ہوئی ہے ان کا نسب ثابت ہے۔ البتہ اولاد کی پرورش کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک اور لڑکی کے بالغ ہونے تک پرورش کی سب سے زیادہ حقدار ماں ہوتی ہے، لیکن اگر بچوں کی ماں بچوں کے غیر محرم مرد سے شادی کرلے تو اس کی پرورش کا حق ختم ہوجاتا ہے اور یہ حق نانی کو مل جاتا ہے، نانی نہ ہو یا وہ پرورش سے انکار کرلے تو دادی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے، البتہ لڑکے کی عمر سات سال ہونے اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد باپ کو پرورش کا حق مل جاتا ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں اگر خاتون کا پہلا شوہر اس کی دوسرے شوہر سے ہونے والی اولاد کا غیر محرم ہو تو سات سال کا لڑکا اور بالغ لڑکی اپنے باپ کے پاس رہیں گے، جبکہ چھوٹے بچے اپنی نانی یا دادی کے پاس رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (559/1، ط: دار الفكر)
رجل غاب عن امرأته فتزوجت بزوج آخر، ودخل بها فعاد الزوج الأول فرق القاضي بينها وبين الزوج الثاني، وكان عليها العدة، ولا نفقة لها في عدتها لا على الأول، ولا على الثاني.
الدر المختار: (131/13، ط: دار الفكر)
(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود…(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه…(وتجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت (من وقت التفريق) أو متاركة الزوج…(ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوة.
الدر المختار مع رد المحتار: (23/4، ط: دار الفكر)
(و) لا حد أيضا (بشبهة العقد) أي عقد النكاح (عنده) أي الإمام (كوطء محرم نكحها) وقالا إن علم الحرمة حد وعليه الفتوى خلاصة،…وحرر في الفتح أنها من شبهة المحل وفيها يثبت النسب كما مر (أو) وطء في (نكاح بغير شهود) لا حد لشبهة العقد.
وفي المجتبى: تزوج بمحرمة أو منكوحة الغير أو معتدته ووطئها ظانا الحل لا يحد ويعزر وإن ظانا الحرمة فكذلك عنده خلافا لهما.
(قوله بشبهة العقد) أي ما وجد فيه العقد صورة لا حقيقة؛ لأن الشبهة كما مر ما يشبه الثابت وليس بثابت فخرج ما وجد فيه العقد حقيقة، ولذا قال في التتارخانية: وإذا كان الوطء بملك النكاح أو بملك يمين والحرمة بعارض آخر فذلك لا يوجب الحد.
(قوله كوطء محرم نكحها) أي عقد عليها أطلق في المحرم فشمل المحرم نسبا ورضاعا وصهرية، وأشار إلى أنه لو عقد على منكوحة الغير أو معتدته أو مطلقته الثلاث …فإنه لا حد وهو بالاتفاق على الأظهر.
الهداية في شرح بداية المبتدي: (283/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد " لما روى أن امرأة قالت يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال عليه الصلاة والسلام: " أنت أحق به مالم تتزوجي " ولأن الأم أشفق وأقدر على الحضانة فكان الدفع إليها أنظر.
الدر المختار: (566/3، ط: دار الفکر)
والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب…..(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.
الفتاوى الهندية: (543/1)
الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.
و فیها ایضاً: (541/1)
ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها.
فتاوى عثمانى: (452/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
امدادالاحکام: (877/2، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی