سوال:
مفتی صاحب! بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ باہر گھومنے گئی، شوہر کو علم ہوا تو اس نے کہا کہ اگر تو دوبارہ باہر گھومنے پھرنے گئی تو تجھے طلاق ہے۔ کیا یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر تو میری اجازت کے بغیر گئی تب تجھے طلاق ہے ورنہ نہیں؟ کیا شوہر کی اس نیت کا اعتبار ہے یا یہ عموم پر ہوگا کہ اجازت ہو یا نہ ہو ہر حال میں طلاق واقع ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص طلاق کو معلّق کرے اور وہ یہ دعویٰ کرے کہ اس طرح معلّق کرنے سے اس کی یہ نیت تھی تو دیکھا جائے گا کہ نیت ظاہرِ حال کے مطابق ہے یا مخالف ہے، اگر اس کی نیت ظاہر حال کے مطابق ہو تو دیانتاً و قضاءاً اس کی یہ نیت معتبر ہوگی، لیکن اگر نیت ظاہر حال کے مطابق نہ ہو بلکہ مخالف ہو تو اس کی نیت کا دیانتاً تو اعتبار کر لیا جائے گا، مگر قضاءاً اس کی یہ نیت معتبر نہیں ہوگی۔
مذکورہ صورت میں شوہر کا بیوی سے یہ کہنا کہ "اگر تو باہر گھومنے پھرنے گئی تو طلاق ہے" اور شوہر کا یہ کہنا کہ میری نیت یہ تھی کہ میری اجازت کے بغیر گئی تب طلاق ہے، چونکہ شوہر کی یہ نیت ظاہرِ حال کے موافق ہے کیونکہ بیوی کا بلا اجازت جانا اس کا قرینہ ہے، پس شوہر کی یہ نیت دیانتاً وقضاءاً معتبر ہوگی اور بیوی جب کبھی شوہر کی اجازت کے بغیر گھومنے پھرنے گئی تو طلاق واقع ہو جائے گی، البتہ اجازت کے ساتھ جانے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
ردّ المحتار: (مطلب النیة للحالف بطلاق أو عتاق،785/3،ط: سعید)
ﻭاﻟﺤﺎﺻﻞ: ﺃﻥ اﻟﺤﻠﻒ ﺑﻄﻼﻕ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﺗﻌﺘﺒﺮ ﻓﻴﻪ ﻧﻴﺔ اﻟﺤﺎﻟﻒ ﻇﺎﻟﻤﺎ ﺃﻭ ﻣﻈﻠﻮﻣﺎ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻨﻮ ﺧﻼﻑ اﻟﻈﺎﻫﺮ ﻛﻤﺎ ﻣﺮ ﻋﻦ اﻟﺨﺎﻧﻴﺔ، ﻓﻼ ﺗﻄﻠﻖ ﺯﻭﺟﺘﻪ ﻻ ﻗﻀﺎء ﻭﻻ ﺩﻳﺎﻧﺔ، ﺑﻞ ﻳﺄﺛﻢ ﻟﻮ ﻇﺎﻟﻤﺎ ﺇﺛﻢ اﻟﻐﻤﻮﺱ، ﻭﻟﻮ ﻧﻮﻯ ﺧﻼﻑ اﻟﻈﺎﻫﺮ، ﻓﻜﺬﻟﻚ ﻟﻜﻦ ﺗﻌﺘﺒﺮ ﻧﻴﺔ ﺩﻳﺎﻧﺔ ﻓﻘﻂ، ﻓﻼ ﻳﺼﺪﻗﻪ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺑﻞ ﻳﺤﻜﻢ ﻋﻠﻴﻪ ﺑﻮﻗﻮﻉ اﻟﻄﻼﻕ ﺇﻻ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻣﻈﻠﻮﻣﺎ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻝ اﻟﺨﺼﺎﻑ ﻭﻳﻮاﻓﻘﻪ ﻣﺎ ﻗﺪﻣﻪ اﻟﺸﺎﺭﺡ ﺃﻭﻝ اﻟﻄﻼﻕ ﻣﻦ ﺃﻧﻪ ﻟﻮ ﻧﻮﻯ اﻟﻄﻼﻕ ﻋﻦ ﻭﺛﺎﻕ ﺩﻳﻦ ﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻘﺮﻧﻪ ﺑﻌﺪﺩ ﻭﻟﻮ ﻣﻜﺮﻫﺎ ﺻﺪﻕ ﻗﻀﺎء ﺃﻳﻀﺎ. اﻩ.
تکملة فتح الملهم: (باب الیمین علی نیة المستحلف،205/2،ط: مكتبة دارالعلوم كراتشي)
وجملة الكلام في المسالة على ما فهمته من فقهاءنا أن التورية في اليمين لا يخلو: إما أن يكون اللفظ يحتمله، ولو على سبيل المجاز، أو لا، فإن كان اللفظ لا يحتمله فالمعتبر هو المعنى الظاهر، ولا عبرة بنية الحالف أصلاً، وأما إذا كان اللفظ يحتمله فلا يخلو: إما أن يكون اليمين بالله، أو بالطلاق والعتاق، فإن كان بالطلاق والعتاق فالمعتبر نية الحالف مطلقا، وإن كان خلاف الظاهر، وأما إذا كان اليمين بالله، فلا يخلو: إما أن يكون المستحلف ظالما في استحلافه أو عادلا، فان كان ظالما في استحلافه فالمعتبر نية الحالف على الإطلاق، قضاء وديانة، وإن كان عادلا في استحلافه فلا يخلو إما أن يكون الاستحلاف من القاضي أو لا، فإن كان الاستحلاف من القاضي، أو بامره وإذنه، فالمعتبر نية المستحلف مطلقا الخ.
دارالإفتاء جامعةالرشيد: (طلاق کے احکام،فتوی نمبر:70514)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی