سوال:
ایک خاتون نے حیض کا خون رکنے کے بعد غسل کرکے نماز ادا کی، قرآن پاک کی تلاوت و دیگر عبادات کیں، تلاوت سے فراغت کے بعد دوبارہ خون جاری ہوگیا، سوال یہ ہے کہ پڑھی گئی نماز اور دیگر عبادت کا کیا حکم ہے؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر ایام عادت کے مطابق خون بند ہونے کے بعد دوبارہ جاری ہوا ہو تو خون کے بند ہونے کا انتظار کیا جائے گا، اگر دس دن کے اندر اندر خون بند ہوجائے تو یہ سارا حیض شمار ہوگا اور سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی، ان دنوں کی نمازیں معاف ہیں۔
اور اگر خون دس دن سے زیادہ جاری رہے تو عادت سے زیادہ جتنے دن گزرے ہیں، وہ استحاضہ کے شمار کیے جائیں گے، اور ان تمام دنوں کی چھوٹی ہوئی نمازیں قضا کرنی ہوں گی، لہذا اس صورت میں عادت کے مطابق خون بند ہونے کے بعد جو نماز اور عبادت آپ نے کی ہے، وہ ادا ہوگئی ہے، اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتاویٰ الھندية: (37/1، ط: مکتبه ماجدیه)
فان لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأۃ او معتادۃ وان جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ ایام وفی المعتادۃ معروفتھا فی الحیض حیض و الطھر طھر۔
الھدایة: (65/1، ط: مکتبة رحمانیة)
ولو زاد الدم علی عشرۃ ایام ولھا عادی معروفة دونھا، ردت الی ایام عادتھا، والذی زاد استحاضة: لقوله علیه السلام المستحاضة تدع الصلوٰۃ ایام اقرائھا۔
الدر المختار: (باب الحیض، 298/1، ط: سعید)
و دم الإستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتاً کاملاً لایمنع صوماً و صلاةً و لو نفلاً و جماعاً، لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی