سوال:
اگر کوئی شخص کسی کو بھری مجلس میں کچھ برا کہے تو اسے وہی مار کر سبق سکھانا چاہیے یا نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق صبر کرنا چاہیے؟
جواب: برائی کا جواب برائی سے دینے کے بجائے عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرکے بھلائی اور نیکی سے دینا چاہیے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: "اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو"۔ (سورہ فصلت، آیت نمبر: 34)
واضح رہے کہ شرعی تعلیمات کی روشنی میں اگرچہ برا کرنے والے سے برابر کا بدلہ لینا جائز ہے، لیکن اس آیت مبارکہ میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ برا سلوک کر رہا ہو تو تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ اس کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو۔ ایسا کرو گے تو تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے گا، اور تم نے اس کی برائی پر جو صبر کیا، اس کا بہترین ثواب آخرت میں تمہیں ملے گا۔
نیز حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو بندہ معاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے۔ (صحيح مسلم، حديث نمبر:2588)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (فصلت، الایة: 34)
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌo
و قوله تعالی: (النحل، الایة: 126)
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَo
تفسير ابن كثير: (615/4، ط: دار طيبة)
وهذه الآية الكريمة لها أمثال في القرآن، فإنها مشتملة على مشروعية العدل والندب إلى الفضل، كما في قوله: {وجزاء سيئة سيئة مثلها} ثم قال {فمن عفا وأصلح فأجره على الله} [الشورى: ٤٠] . وقال {والجروح قصاص} ثم قال {فمن تصدق به فهو كفارة له} [المائدة: ٤٥] ، وقال في هذه الآية الكريمة: {وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به} ثم قال {ولئن صبرتم لهو خير للصابرين}.
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2588، 2001/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة،عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا. وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی