سوال:
میں محکمہ مال میں بطور پٹواری کی نوکری کرتا ہوں، ہم زمین کے انتقال پر لوگوں سے فیس لیتے ہیں اور اگر زمین کی پیمائش وغیرہ ہو تو ہم اس کی بھی فیس لیتے ہیں اور زمینداروں سے جب وہ فصل کاشت کرتے ہیں تو ان کی خوشی کے مطابق فصل بھی لیتے ہیں۔ آیا کیا ہمارے لیے یہ سب لینا ٹھیک ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ اس کی ہمارے محکمہ سے اجازت بھی ہے اور لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، اس میں ہمارا سکیل نو ہے اور 30000 تنخواہ بھی ہے۔
جواب: کسی کے نام زمین کے انتقال کی صورت میں محکمے کی طرف سے مقرر کردہ فیس لینے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مقررہ فیس سے زیادہ رقم وصول نہ کی جائے۔
فصل کی کاشت کے وقت پٹواری کا زمیندار سے غیر قانونی طور پر فصل وغیرہ لینا شرعاً درست نہیں ہے، البتہ اگر زمیندار اپنی دلی رضامندی اور خوشی سے پٹواری کو کوئی چیز دے تو یہ اس کی طرف ہدیہ ہے، جس کا لینا درست ہے، لیکن اگر اس کے لیے زمیندار کو مجبور کیا جاتا ہو یا زمیندار غیر قانونی طریقے سے اپنا کام نکلوانے کیلئے کوئی چیز دے تو پھر پٹواری کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (372/5، ط: سعید)
(ويرد هدية) التنكير للتقليل ابن كمال: وهي ما يعطى بلا شرط إعانة بخلاف الرشوة ابن ملك۔
و فیه ایضا: (362/5)
وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.
الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.
الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط ۔۔۔ قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع.
الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اه ما في الفتح ملخصا.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی