سوال:
بہت سے لوگ اہل علم سے دلیل کے ساتھ جواب کا مطالبہ کرتے ہیں، کیا ہر عالم کے لیے دلیل کے ساتھ جواب دینا ضروری ہے؟ کیا عام آدمی کے لیے عالم کی بات ماننا کافی ہے، اگرچہ اس نے غلط مسئلہ بتایا ہو؟
جواب: عام آدمی مقلد ہوتاہے جو فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کی پابندی کرتا ہے، "تقلید" کا مطلب ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کا قول مان کر اس پر عمل کرنا اور ان سے دلیل اور تحقیق کا مطالبہ نہ کرنا اس حسن ظن کے ساتھ کہ انہوں نے دلیل کے موافق ہی مسئلہ بیان کیا ہوگا۔
عوام چونکہ دلائل کی اقسام اور اس سے استدلال کا علم نہیں رکھتے، اس لئے ان کا مفتی سے دلیل کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ ان کو چاہیے کہ کسی جید مفتی سے مسئلہ معلوم کرنے کے بعد اس پر عمل کریں، البتہ سوال کرنے والا اپنی تسلی کے لیے مفتی سے مسئلے کا حوالہ بیان کرنے کی درخواست کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
النامی شرح الحسامی: (ص: 190، ط: قدیمی)
التقلید اتباع الغیر علی ظن انه محق بلا نظر فی الدلیل۔
الدر المختار: (210/3، ط: سعید)
أنَّ الواجِبَ عَلى المُقَلِّدِ العَمَلُ بِقَوْلِ المُجْتَهِدِ وإنْ لَمْ يَظْهَرْ دَلِيلُهُ كَما أفادَهُ فِي رَسْمِ المُفْتى۔
رد المحتار:(80/4، ط: سعید)
مَطْلَبٌ العامِّيُّ لا مَذْهَبَ لَهُ قُلْت: وأيْضًا قالُوا العامِّيُّ لا مَذْهَبَ لَهُ، بَلْ مَذْهَبُهُ مَذْهَبُ مُفْتِيهِ، وعَلَّلَهُ فِي شَرْحِ التَّحْرِيرِ بِأنَّ المَذْهَبَ إنّما يَكُونُ لِمَن لَهُ نَوْعُ نَظَرٍ واسْتِدْلالٍ وبَصَرٍ بِالمَذْهَبِ عَلى حَسَبِهِ، أوْ لِمَن قَرَأ كِتابًا فِي فُرُوعِ ذَلِكَ المَذْهَبِ وعَرَفَ فَتاوى إمامِهِ وأقْوالَهُ۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی