سوال:
میرے اوپر قربانی واجب ہے اور میں اپنی قربانی کر رہا ہوں، لیکن اس قربانی کا ثواب والدین کے نام پر کرنا چاہتا ہوں، کیا میں اپنی واجب قربانی کا ثواب والدین کے نام پر کر سکتا ہوں؟ شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: فرائض اور واجبات کے ایصالِ ثواب کے بارے ميں حضرات علماء کرام کی آراء مختلف ہیں، بعض علماء کرام اس کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کے قائل نہیں ہیں، البتہ مفتٰی به قول یہ ہے کہ نوافل کی طرح فرائض و واجبات میں بھی ایصال ثواب کرنا درست ہے۔
پوچھی گئی صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ آپ اپنی واجب قربانی اداکریں اور والدین کے ایصال ثواب کے لئے الگ سے مستقل نفلی قربانی کرلیں، لیکن اگر ایصال ثواب کے لئے مستقل نفلی قربانی نہیں کرسکتے تو اس صورت میں اپنی واجب قربانی ادا کرکے اس کا ثواب اپنے والدین کو پہنچا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (243/2، ط: سعید)
وفی البحر: من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابه لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال و بهذا علم انه لا فرق بين ان يكون المجعول له ميتا او حي. و الظاهر انه لا فرق بين أن ينوي به عن الفعل للغير او يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره. لاطلاق كلامهم. وانه لا فرق بين الفرض والنفل اه. وفي الجامع الفتاوى: وقيل لا يجوز في الفرائض اه.
الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة: (352/3، ط: سعید)
ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه و لایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی