سوال:
"تورق" کا تصور ایس اے بی (SAB) کی شریعہ نگران کمیٹی سے منظور شدہ ہے، SAB دھاتوں کا مالک ہے جو کہ عالمی مارکیٹ سے خرید لی جاتی ہیں، پھر یہ دھاتیں کسٹمر کو معلوم اور مقررہ سالانہ فیصدی شرح پر فروخت کی جاتی ہیں۔
ایس اے بی سے دھاتیں خریدنے کے بعد کسٹمر دھاتوں کو نقد رقم میں فروخت کرنے کے مقصد کے لیے ایس اے بی کو پاور آف اٹارنی جاری کرسکتے ہیں۔
ایس اے بی SAB تورق کے اس تصور کے مطابق قرض کی سہولت فراہم کر رہا ہے، کیا اس بینک سے اس طرح قرض لینا جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار فقہی اصطلاح میں "تورق" کہلاتا ہے، جو اصلا سودی قرض سے بچنے کی ایک جائز تدبیر ہے، اس لیے ضرورت کے موقع پر اس طرح معاملہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے مستقل کاروباری طریقہ (practice) کے طور پر اختیار کرنا پسندیدہ نہیں ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ بینک اگر مستند علمائے کرام کی زیرنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق تورق کا معاملہ کر رہا ہو تو بوقت ضرورت اس طرح کا معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (46/2، 67، ط: متکبة دارالعلوم کراتشي)
التورق فی اصطلاح الفقهاء: أن یشتری المرء سلعة نسیئة، ثم یبیعها نقدًا لغیر البائع بأقل مما اشتراها به؛ لیحصل علی النقد…… و حاصل ما ذکر نا أن التورق عملیة جائزة فی نفسها، و غاية ما فی الباب -کما قال ابن الهمام ؒ - أنه خلاف الأولی إن کان البائع یعلم أن المشتری محتاج إلی نقود لأغراضه الشخصية، ولا یشتری السلعة بثمن غال إلا بسبب حاجته إلیها، فلو کان فی مکنة البائع أن یقرضه النقود التی یحتاج إلیها فلا شك أنه الأفضل والأکثر أجرا، فترک الإقراض فی هذه الحالة واللجوء إلي بيع السلعة بثمن أکثر خلاف الأفضل.......و کذلك إن کان البائع یعرف أن المشتری المتورق یحتاج إلی سیولة نقدیة لأغراضه التجاریة، و مقصوده الحصول علی التمویل؛ فالأفضل للبائع أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة لکونهما طریقین مفضلین للتمویل، فالعدول عنهما إلی التورق خلاف الأولی کلما کان الطریق المفضل میسرًا، و لکن لا سبیل إلی القول بأنه یجب علیه أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة و لا یدخل فی التورق.
ولکن ما ذکرنا من جواز التورّق عند جمهور الفقهاء انما یتأتی فی التورّق الذي هو عبارة عن عمیلتین بسیطتین: إحداهما شراء السلعة بالأجل، و ثانیتهما بیعها فی السوق عاجلا. و التورق الذی تصوره الفقهاء و حکموا بجوازه هو أن السلعة موجودة عند البائع مملوکة له ملکًا حقیقیًا، ثم تنتقل ملکیتها إلی المشتری بحکم البیع الحقیقی الذی تتبعه جمیع أحکام البیع. و لکن إذا اقترنت بهذه العملیة ملابسات أخری، فلا یبعد أن یتغیر الحکم، إما إلی عدم الجواز بتاتًا، أو إلی الکراهة، أو إلی ازدیاد بعدها عن العملیات المفضلة. ...فإن اشتری المتورق البضاعة نیابة عن المصرف، ثم اشتراه لنفسه بدون أن یرجع إلی المصرف و ینشئ معه البیع بعقد مستقل، فإن هذه العملیة لا تجوز أصلا؛ لأن الوکیل لا یتولی طرفی البیع، و لأنه یجب الفصل بین الضمانین فی البضاعة. و أما إذا رجع الوکیل المتورق إلی المصرف بعد شراء البضاعة، ثم عقد معه البیع بإیجاب و قبول، فالعقد لیس باطلًا، ولکنه لا یخلو من کراهة؛ لأنه یقرب العقد إلی الصوریة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی